ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون2009 |
اكستان |
|
اُمت ِمسلمہ کی مائیں قسط : ٤ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ( حضرت مولانا محمد عاشق الٰہی صاحب بلند شہری ) آنحضرت ۖ کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے محبت : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے آنحضرت ۖ کو دیگر تمام بیویوں کی بہ نسبت زیادہ محبت تھی۔ حضرت عَمر و بن العاص نے ایک مرتبہ سوال کیا کہ یا رسول اللہ ۖ آپ کو سب سے زیادہ کون محبوب ہے؟ آپ ۖ نے فرمایا عائشہ ،اُنہوں نے مکرر سوال کیا یا رسول اللہ مردوں میں سب سے زیادہ آپ کو کون محبوب ہے؟ فرمایا عائشہ کے والد۔ سائل نے سہ بار سوال کیا کہ اُن کے بعد؟ فرمایا عمر۔ لیکن اِس قدر محبت کے باوجود کسی دُوسری بیوی کی ذرا حق تلفی نہیں فرماتے تھے۔ سب کے حقوق اور دِلداری اور شب باشی میں برابری رکھتے تھے ۔چونکہ طبعی محبت اختیاری نہیں ہے اِس لیے بار گاہِ خدا وندی میں آپ ۖ نے یہ دُعا کی تھی اَللّٰہُمَّ ھٰذَا قَسْمِیْ فِیْمَا اَمْلِکُ فَلَا تَلُمْنِیْ فِیْمَا تَمْلِکُ وَلَا اَمْلِکُ (اے اللہ !یہ میری تقسیم ہے میرے اختیار کی چیزوں میں لہٰذا مجھے ملامت نہ کیجئے اُس چیز میں جس کے آپ مالک ہیں اور میرے قبضہ کی نہیں ہے) یعنی طبعی محبت غیر اختیاری ہے اِس میں برابری کرنا میرے اختیار سے باہر ہے۔(جمع الفوائد) حضورِ اقدس ۖ کو اللہ جل شانہ نے معلم بناکر بھیجا تھا اِس لیے آپ کو اللہ کی طرف سے ایسے حالات میں مبتلا کیا گیا جن سے اُمت کو راہ مل سکے۔ چونکہ اُمت کو چار بیویوں تک رکھنے کی اجازت ہے اِس لیے جو اُمتی اِس پر عمل کرے اُس کے لیے آنحضرت ۖ کی زندگی سے سبق مل گیا کہ ایک بیوی سے طبعی محبت زیادہ ہو تو اِس پر مواخذہ نہیں لیکن حق کی ادائیگی میں سب کو برا بر رکھنا فرض ہے اِس میں کوتاہی کی توپکڑ ہوگی۔ ترمذی شریف میں ہے کہ آنحضرت ۖ نے فرمایا کہ جب ایک مرد کے پاس دو بیویاں ہوں اور وہ اُن کے درمیان برابری کا خیال نہ رکھے تو قیامت کے روز اِس حال میں آئے گا کہ اُس کا ایک پہلو گرا ہوا ہوگا۔ (ترمذی بحوالہ مشکوٰة شریف)