ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون2009 |
اكستان |
|
چھ صحابۂ کرام کی فضیلت : عَنْ سَعْدٍ قَالَ کُنَّا مَعَ النَّبِیِّ ۖ سِتَّةَ نَفَرٍ فَقَالَ الْمُشْرِکُوْنَ لِلنَّبِیِّ ۖ اُطْرُدْ ھٰؤُلَائِ لَایَجْتَرِئُ وْنَ عَلَیْنَا قَالَ وَکُنْتُ اَنَا وَابْنُ مَسْعُوْدٍ وَرَجُل مِّنْ ھُذَیْلٍ وَبِلَال وَرَجُلَانِ لَسْتُ اُسَمِّیْھِمَا فَوَقَعَ فِیْ نَفْسِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ۖ مَاشَائَ اللّٰہُ اَنْ یَّقَعَ فَحَدَّثَ نَفْسَہ فَاَنْزَلَ اللّٰہُ وَلَاتَطْرُدِ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْھَہ ۔(مسلم بحوالہ مشکوة ص ٥٧٥) حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ۖ کے ساتھ ہم چھ آدمی تھے (مکہ مکرمہ کے ) مشرکین(میں سے بعض سرداروں )نے نبی کریم ۖ سے مطالبہ کیا کہ تم (اگر چاہتے ہوکہ ہم لوگ تمہارے پاس آئیں جائیں، تمہاری دعوتی باتیں سنیں اور قبول ِ اسلام کے بارے میں سوچیں تو اپنے ساتھیوں میں سے) اِن لوگوں کو(جو آزاد کردہ غلام ہیں اور ہماری سماجی زندگی میں بے وقعت و بے حیثیت مانے جاتے ہیں اپنی مجلس سے ) دُور رکھو، تاکہ یہ لوگ (ہمارے برا بر میں بیٹھنے اور ہمارے ساتھ بات چیت میں شریک ہونے کا فائدہ اُٹھا کر ) ہم پر جَری اَور دلیر نہ ہوجائیں ۔ حضرت سعد فرماتے ہیں کہ اِن چھ آدمیوں میں سے ایک تو میں تھا ایک عبداللہ بن مسعود تھے، ایک شخص قبیلہ ہذیل کا تھا ایک بلال تھے، دو آدمی اور تھے جن کا نام میں نہیں بتاتا ١ بہرحال (اِن سرداروں کا مطالبہ سن کر ) رسول کریم ۖ کے خیال میں وہ بات آئی جو اللہ نے چاہا کہ آئے، پھر آپ نے اِس بارے میں سوچا ہی تھا کہ یہ آیت کریمہ نازل ہوگئی وَلَاتَطْرُدِ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْھَہ (یعنی اُن لوگوں کو اپنے پاس سے نہ ہٹائیے جو صبح و شام اپنے رب کو یاد کرتے ہیں اور پکارتے ہیں اور (اِس عبادت و ذکر سے) اُن کا مقصد اپنے رب کی رضاء و خوشنودی چاہنے کے سوا کچھ نہیں ہوتا)۔ ١ غالبًا یہ حضرات حضرت خباب بن الارت اور حضرت عمار بن یاسر تھے۔