ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون2009 |
اكستان |
|
( دینی مسائل ) بیمار کے طلاق دینے کابیان : یہاں'' بیمار'' سے وہ شخص مراد ہے جو ایسی بیماری میں مبتلا ہو جس سے عام طور پر موت واقع ہو جاتی ہے۔ مسئلہ : بیماری کی حالت میں کسی نے اپنی عورت کو طلاق دے دی پھر عورت کی عدت ختم نہ ہوئی تھی کہ اُسی بیماری میں مرگیا تو شوہر کے مال میں سے جتنا بیوی کا حصہ ہوتا ہے اُتنا اِس عورت کو بھی ملے گاچاہے ایک طلاق دی ہو یا دو تین اور چاہے طلاق ِ رجعی دی ہو یا بائن سب کا ایک حکم ہے۔ اگر عدت ختم ہو چکی تھی تب وہ مرا تو حصہ نہ پائے گی۔ اِسی طرح اگر مرد اِسی بیماری میں نہیں مرا بلکہ اِس سے اچھا ہو گیا تھا پھر بیمار ہوگیا اور مرگیا تب بھی حصہ نہ پائے گی چاہے عدت ختم ہو چکی ہو یا نہ ہوئی ہو۔ مسئلہ : عورت نے طلاق بائن مانگی تھی اِس لیے مرد نے طلاق ِ بائن دے دی تو عورت حصہ پانے کی مستحق نہیں چاہے عدت کے اَندر مرے یا عدت کے بعد دونوں کا حکم ایک ہے۔ البتہ اگر طلاق ِ رجعی دی ہو خواہ عورت نے طلاق ِ رجعی مانگی ہو یا طلاق ِ بائن مانگی ہو اَور عدت کے اَندر شوہر مرجائے تو عورت میراث میں حصہ پائے گی۔ مسئلہ : بیماری کی حالت میں عورت سے کہا کہ تو گھر سے باہر جائے تو تجھ کو بائن طلاق ہے۔ پھر عورت باہر گئی اور طلاق ِ بائن پڑ گئی تو اِس صورت میں حصہ نہ پائے گی کہ اُس نے خود ایسا کام کیا جس سے طلاق پڑی ۔اور اگر یوں کہا کہ اگر تو کھانا کھائے تو تجھ کو طلاق ِ بائن ہے یا یوں کہا اگر تو نماز پڑھے تو تجھ کو طلاق ِ بائن ہے۔ ایسی صورت میں اگر وہ عدت کے اندر مرجائے گا تو عورت کو حصہ ملے گا کیونکہ عورت کے اختیار سے طلاق نہیں پڑی، کھانا کھانا اور نماز پڑھنا تو ضروری ہے۔ مسئلہ : کسی اچھے بھلے آدمی نے کہا کہ جب تو گھر سے باہر نکلے تو تجھ کو طلاق ِ بائن ہے پھر جس وقت وہ گھر سے باہر نکلی اُس وقت وہ بیمار تھا اور اُسی بیماری میں عدت کے اندر مرگیا تب بھی حصہ نہ پائے گی۔( باقی صفحہ ٤٢)