ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون2009 |
اكستان |
|
دُوسری قسم کے وہ اسباب ہیں جن کو قاد ر ِ مطلق نے مقرر فرمائے، یہ تمام اسباب اور دُنیا کے سارے کام اُس کی مشیت کے تابع ہیں۔ بعض اَوقات یہ بات لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتی تو کہنے لگتے ہیں کہ جب رزق مقدر ہے، عمریں مقرر ہیں نہ کم ہو سکتی ہے نہ زیادہ جیسا کہ باری تعالیٰ کا اِرشاد ہے '' وَلِکُلِّ اُمَّةٍ اَجَل فَاِذَا جَآئَ اَجَلُھُمْ لَا یَسْتَأْخِرُوْنَ سَاعَةً وَّلَایَسْتَقْدِمُوْنَ'' اَب اِس آیت اور حدیث میں کیسے تطبیق ہو؟ جواب یہ ہے کہ تقدیر کی قسمیں ہیں : پہلی قسم : مشیت یا مبرم یا مطلق: یہ تقدیر لوحِ محفوظ میں ہوتی ہے اِس میں کوئی تبدیلی و تغیر واقع نہیں ہو تی۔ دُوسری قسم : معلق ومقید: یہ تقدیر فرشتوں کے صحیفوں میں لکھی ہو تی ہے اور اِس تقدیر میں کمی و زیادتی ہو تی ہے۔ حضرت شیخ الا سلام علامہ ابن ِتیمیہ نے فرمایا : اَجل کی دو قسمیں ہیں : ١۔ مطلق جس کو اللہ تعالیٰ جانتے ہیں۔ ٢۔ اَجل ِ مقید اور اِسی سے حدیث (مَنْ سَرُّہ اَنْ یُّبْسَطَ لَہ فِیْ رِزْقِہ وَیُنْسَأَ لُہ فِیْ اَثَرِہ فَلْیَصِلْ رَحِمَہ) کا معنی واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرشتے کو حکم دیتے ہیں کہ فلاں شخص کے لیے ایک مدت مقرر لکھ دے اور فرماتے ہیں اگر صلہ رحمی کرے تو اُس کی عمر اِتنی اور اِتنی زیادہ کردو جبکہ فرشتہ نہیں جانتا کہ زیادہ ہوگا یا نہیں لیکن اللہ تعالیٰ اُس کے ''مال '' سے با خبر ہوتے ہیں لہٰذا جب وقت ِمقرر آتا ہے تو اُس سے نہ آگے بڑھ سکتا ہے اور نہ پیچھے ہو سکتا ہے۔ (مجموع الفتاویٰ ٨/٥١٧) ایک اور مقام پر رزق کے متعلق اُن سے پو چھا گیا کہ رزق زیادہ ہوتا ہے کہ نہیں؟ تو جواب دیا کہ رزق کی دو قسمیں ہیں : ایک وہ جو اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے کہ اِسے اِتنا رزق دیا جائے گا یہ متغیر نہیں ہوتا۔ دُوسری وہ جو لکھ کر فرشتوں کو بتادیا ہے اَسباب کے پیش نظر یہ کم یا زیادہ ہوتا ہے۔ پھر اسباب رزق منجملہ اُن چیزوں میں سے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے مقدر فرما کر لکھ دیا ہے۔ سو اللہ تعالیٰ نے اگر یہ بات طے کر دی ہو کہ فلاں بندے کو اُس کی سعی اور محنت اور کمانے سے رزق ملے گا تو اُس کو سعی و کسب کا طریقہ بھی سکھا دیتے ہیں اور