ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون2009 |
اكستان |
|
تربیت کا خاص خیال : سیّد ِعالم ۖ کو اگرچہ حضرت عائشہ سے بہت محبت تھی اَور اُن کی تربیت کا بھی خاص خیال فرماتے تھے اَور اللہ تعالیٰ سے ڈراتے رہتے جہاں لغزش نظر آتی فورًا آگاہ فرماتے اور سر زنش فرماتے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت فرماتی ہیں کہ آنحضرت ۖ ایک غزوہ میں تشریف لے گئے میں نے پیچھے ایک اچھا سا پردہ لٹکا دیا جب آپ ۖ تشریف لائے تو اُس پردہ کو اِس زور سے پکڑ کر کھینچا کہ اُس کو پھاڑدیا پھر فرمایا بلاشبہہ اللہ تعالیٰ نے ہم کویہ حکم نہیں دیا کہ پتھروں کو اَور مٹی کو لباس پہناویں۔ (مشکوٰة عن البخاری و ا لمسلم ) ایک مرتبہ چند یہودی آپ ۖ کے پاس آئے اور اُنہوں نے دبی زبان سے اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کے بجائے اَلسَّامُ عَلَیْکُمْ کہا۔ ''سَامْ'' موت کو کہتے ہیں اُن کا مطلب بددُعا دینا تھا۔ آنحضرت ۖ نے اِس کے جواب میں وَعَلَیْکُمْ فرمادیا (یعنی تم پر موت ہو )۔ آنحضرت ۖ نے تو اِسی قدر فرمایا لیکن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سخت برہم ہوئیں اور غصہ سے اُنہوں نے فرمایا اَلسَّامُ عَلَیْکُمْ وَلَعَنَکُمُ اللّٰہُ وَغَضِبَ عَلَیْکُمْ (تم پر موت ہو اور خدا کی لعنت ہو اور خدا کا غضب ٹوٹے ) یہ سن کر سیّد ِ عالم ۖ نے فرمایا : اے عائشہ ٹھہر نرمی اختیار کر اور بدکلامی سے بچ۔ عرض کیا آپ نے سنا نہیں اُنہوں نے کیا کہا ہے۔ سیّد ِ عالم ۖ نے فرمایا اَور تم نے نہیں سنا میں نے کیا جواب دیا؟ اُن کی بات میں نے اُن پر لُٹا دی۔ اَب اللہ تعالیٰ میری بددُعا اُن کے حق میں قبول فرمائیں گے اور اُن کی بددُعا میرے حق میں قبول نہ ہوگی۔ (مشکوٰة) ایک مرتبہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کی بُر ائی کرتے ہوئے کہہ دیا کہ صفیہ اِتنی سی ہے یعنی پستہ قد ہے۔ آنحضرت ۖ نے فورًا ٹوکا اور فرمایا کہ یقین جان ! تو نے ایسا کلمہ کہہ دیا کہ اِسے اگر سمندر میں ملادیا جائے تو اُسے بھی بگاڑدے۔ (مشکوٰة شریف) ایک روز حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے آٹا پیس کر چھوٹی چھوٹی روٹیاں پکائیں اِس کے بعد اُنکی آنکھ لگ گئی۔ اِسی اثناء میں پڑوسن کی بکری آئی اور روٹیاں کھا گئی۔ آنکھ کھلنے پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اُس کے پیچھے دوڑیں یہ دیکھ کر حضور اقدس ۖنے فرمایا اے عائشہ! ہمسایہ کو اُس کی بکری کے بارے میں نہ ستاؤ۔ مختلف نصائح : حضورِ اقدس ۖ اکثر زُہد اور فکر ِ آخرت اور خدا ترسی کی نصیحتیں فرماتے رہتے تھے۔ایک مرتبہ