ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون2009 |
اكستان |
|
شیطان بن جاتا ہے اور اُسے گمراہی کے غار میں دھکیل دیتا ہے۔اس لیے تکمیل علم کے بعد آپ کو اپنی روحانی اصلاح کیلئے کسی مرشد ِکامل کی ضرورت محسوس ہوئی۔اُن دنوں پنجاب میں رئیس الموحدین امام المفسرین حضرت مولانا حسین علی (واں بھچراں ضلع میانوالی)کے دورئہ تفسیر کا غلغلہ تھا۔ ہزاروں علماء و طلباء دورۂ تفسیر میں شرکت کیلئے حاضر ہوتے تھے۔آپ بھی یہی جذبہ لے کر اُن کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دورۂ تفسیر کے دوران ہی اُن کے دست ِحق پرست پر نقشبندی سلسلہ میں بیعت کر لی۔مرشد ِکامل نے بھی اپنی فراست ِایمانی سے اِن کو پہچانا اور جلد ہی خلعتِ خلافت سے نواز دیا۔ آپ کو اپنے مرشد ِکامل سے انتہائی محبت و عقیدت تھی۔ ان کا ذکر ہمیشہ بڑے احترام اور محبت سے کرتے تھے۔ مرشد ِکامل سے اجازت کے باوجود آپ نے بہت کم لوگوں کو مرید کیاکیونکہ آپ کے علمی مشاغل اس طرف مکمل توجہ دینے میں رُکاوٹ تھے۔اِس کے باوجود ہزاروںعقیدت مندوں نے آپ سے باطنی فیض حاصل کیا۔آپ کا بیعت کرنے کا طریقہ بھی انتہائی ساد ہ ا و ر جامع تھا۔عموماََ بیعت کے الفاظ یہ ہوتے تھے:'' میں شرک و بدعت سے توبہ کرتا ہوں،اَو امر کے بجا لانے اور نواہی سے اجتناب کی پوری کوشش کا وعدہ کرتا ہوں۔''اِس کے بعد آپ اپنے مرید کو نقشبندی سلسلہ کے اَورَاد و وظائف سے آگاہ کرتے اور ان پر استقامت کی تلقین کرتے۔ عادات و خصائل : آپ عالمِ دین اور مرشدکامل ہونے کے ساتھ ساتھ اخلاقِ حسنہ کا مجسمہ تھے۔ سادگی و انکساری آپ کا شعار تھا۔ وقت کی قدر اور اوقات کی پابندی کو حرزِ جاں خیال کرتے تھے۔ اپنے تمام معمولات وقت پر ادا کرتے اور متعلقین سے بھی اِسی کی اُمیدرکھتے۔ امانت اور دیانت میں آپ کو خاص مقام حاصل تھا۔آپ کی دیانت کے بے شمار واقعات ہیں۔ ایک مرتبہ جامعہ رشیدیہ ساہیوال کے جلسہ پر تشریف لائے واپسی پر کرایہ کی رقم ایک لفافہ میں ڈال کر آپ کی خدمت میں پیش کی گئی۔ آپ نے دیکھے بغیر لفافہ جیب میں رکھ لیا۔ گھر جا کر دیکھا تو اس میں پانچ صد روپے تھے۔آپ یہ دیکھ کر پریشان ہو ئے کیونکہ اُن دنوں آمدورفت کا کرایہ تقریباََپینتیس روپے بنتاتھا۔ چنانچہ آپ نے مولانا حبیب اﷲ صاحب ناظمِ جامعہ رشیدیہ کو خط لکھ کر صورت حال سے آگاہ کیا تو جواباََ ناظم صاحب نے لکھا کہ پچاس روپے کے بجائے بھول کرپانچ سو روپے لفافہ میں ڈال دیے گئے ہیں تو آپ نے باقی ساڑھے چار صد روپے ناظم صاحب کو واپس بھجوا دیے۔