ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون2009 |
اكستان |
|
میڈیاکا غیر متوازن روّیہ ( جناب عرفان صدیقی صاحب ،کالم نگار رَوزنامہ جنگ ) جب بھی توازن اور اعتدال کے سنہری اُصولوں کو پس پشت ڈال کر کسی معاملے کو بے ہنگم طریقے سے اُچھال دیا جائے اور ایک رُخے تبصروں کی یلغار سے لوگوں کے دل ودماغ میں چنگاریاں سی بودی جائیں تو وہی کچھ ہوتا ہے جو جمعة المبارک کو ہوا۔ سوات سے آنے والی ایک ویڈیو فلم کے مناظر ہر پہلو سے افسوس ناک ہیں کسی گروہ کو یہ حق نہیں دیا جاسکتا کہ وہ بندوق کے زور اپنی عدالتیں بنالے، اپنا نظام ِ تعزیرات نافذ کردے، خود ہی سزائیں دینے لگے اور خود ہی اُن پر عمل درآمد کرنے لگے۔ پاکستان ایک ریاست ہے جس کا اپنا آئین، اپنا قانون، اپنا نظام ِ عدل اور اپنا نظم و نسق ہے۔ کوئی فرد، قبیل یا گروہ، چاہے وہ کتنا ہی پاکباز اور نیک نیت کیوں نہ ہو، ریاست کے اندر اپنی ریاست بنانے کا استحقاق نہیں رکھتا۔ اسلامی حدود وتعزیرات کا نفاذ بھی ریاست کے احاطۂ اختیار میں آتا ہے جسے کوئی غیر ریاستی عنصر بروئے کار نہیں لاسکتا۔ اِس اعتبار سے سوات کا واقعہ ایک باغیانہ فعل ہے جس کادفاع نہیں کیا جانا چاہیے۔ پورے عزم واخلاص سے اِس طرح کے واقعات کا سدّ باب کرنا چاہیے کہ عوام کی جان و مال کا دفاع اور بنیادی حقوق کا تحفظ اِس کا بنیادی وظیفہ ہے۔ لیکن کیا ہمارے میڈیا نے جو تماشا لگایا جس طرح کی ہاہا کار مچائی، جس طرح کا بارُود برسایا، جس طرح کے اَلاؤ بھڑکائے، جس طرح کا حشر بپاکیا اور جس بے مہار آزادی کے ساتھ گھروں میں بیٹھی خواتین بچوں اور نوجوانوں کے جذبات واحساسات کو یکطرفہ پرو پیگنڈے کے زہر ناک تیروں کا نشانہ بنایا،کیا اُسے متوازن، معتدل، ذمہ دارانہ اور مہذب کہا جا سکتا ہے؟ ہمارے لبرل فاشٹ ''طالبانیت '' کو دُشمن کے طور پر استعمال کرتے ہیں جس کا مفہوم اُن کے نزدیک بے لچک روّیہ اور نقطہ کمال کو پہنچی ہوئی انتہا پسندی ہے۔ کیا اِن لبرل فاشسٹوں اور ہمارے میڈیا نے بھی عملاً اِسی ''طالبانیت '' کامظاہرہ نہیں کیا؟ کیا جو کچھ ہمیں دن بھر دکھایا جاتا رہا وہ کر خت قسم کی اِنتہا پسندی نہ تھی؟