ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون2009 |
اكستان |
|
اِس قصہ سے معلوم ہوا کہ جو بچے بچپن میں مر جاتے ہیں اُن کا مرجانا ہی بہتر ہوتا ہے۔ اِسی واسطے جو دیندار ہیں اُ ن کو اَولاد کے مرجانے کا غم تو ہوتا ہے لیکن پریشان نہیں ہوتے جو شخص اللہ تعالیٰ کو حکیم سمجھے گا وہ کسی واقعے سے پریشان نہ ہوگا۔ ہاں جس کی اُس پر نظر نہیں اُس پر اگر کوئی واقعہ ہوتا ہے مثلاً کوئی بچہ مرجاتا ہے اُس کو بڑا اُتار چڑھاؤ ہوتا ہے کہ اگر زندہ رہتا تو ایسا ہوتا۔ دِل کے اندر سے شعلے اُٹھتے ہیں اَرمان ہوتے ہیں۔ حسرتیں ہوتی ہیں کہ ہائے ایسی لیا قت کا تھا ایسا تھا ویسا تھا۔ صاحبو ! تم کو کیا خبر کہ وہ کیسا تھا؟ غنیمت سمجھو اِسی میں مصلحت تھی ممکن ہے کہ بڑا ہو کر کافر ہوتا۔ اور تم کو کافر بنادیتا۔ (الدنیا ملحقہ دُنیا وآخرت) چھوٹے بچوں کی موت ہوجانے کے فوائد اور اُس کی حکمتیں : چھوٹے بچے کی موت میں ایک حکمت یہ ہے ا گر وہ پیش ِ نظر رہے تو چھوٹے بچوں کے مرنے پر غم کے ساتھ خوشی کا ایک پہلو سامنے ہوگا۔ لوگوں کو اَولاد کے بڑے ہونے کی خوشی محض اِس لیے ہے کہ اُن کا نفس یوں ہی چاہتاہے ورنہ اُن کو کیا خبر کہ کہ بڑے ہو کر یہ کیسا ہوگا والدین کی راحت کا ذریعہ ہوگا یا وبال ِجان ہوگا۔ اور پھر وہ بڑے ہو کر مرے تو یہ خبر نہیں کہ وہ والدین کو آخرت میں کچھ نفع دے گا یا خود ہی سہارے کا محتاج ہوگا۔ اور بچپن میں مرنے والے بچے بہت کار آمد ہیں اُن میں یہ احتمال ہی نہیں کہ وہ آخرت میںنا معلوم کس حال میں ہوں گے کیونکہ غیر مکلف بچے یقینا مغفورلہ بخشے بخشائے ہیں اور وہ آخرت میں والدین کے بہت کام آئیں گا۔ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بچے جنت میں جانے سے پہلے آخرت میں بھی بچے ہی رہیں گے اور اُن کی عادتیں بھی بچوں کی ہوگی یعنی وہی ضد کرنا اور اپنی بات پر اَڑجانا پیچھے پڑ جانا لیکن یہ حالت جنت میں داخل ہونے سے پہلے ہوگی پھر جنت میں پہنچ کر باپ بیٹے سب برابر ایک قد کے ہوجائیں گے۔حدیث میں آیا ہے کہ بچے اَڑجائیں گے اور اللہ تعالیٰ سے کہیں گے کہ ہم جنت میں نہ جائیں گے جب تک ہمارے ماں باپ کو ہمارے حوالے نہ کیا جائے۔ ہم تو اُن کو ساتھ لے کر جنت میں جائیں گے تو اللہ تعالیٰ فرمائیں گے اَیُّھَا الطِّفْلُ الْمُرَاغِمُ رَبَّہ اَدْخِلْ اَبَوَیْکَ کہ اے ضدی بچے اپنے خدا سے ضد کرنے والے جا اپنے والدین کو بھی جنت میں لے جا ،تویہ بے گناہ بچے اللہ تعالیٰ سے خود ہی بخشش کے لیے ضد کریں گے۔(باقی صفحہ ٥٩ )