ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون2009 |
اكستان |
|
وطن عزیز اور قانون نافذ کرنے والے اِداروں کے لیے مشکلات کھڑی نہ کرنے کی بنا پر اہل مدارس کو خراج ِ تحسین پیش کیا جاتا لیکن اُلٹا مدارس کے لوگوں کو ہراساں کیا جا رہا ہے اور دھونس دباؤ اور خوف پر مبنی پالیسیاں تشکیل دی جا رہی ہیں حالانکہ با رہا اِس کا تجربہ کیا جا چکا ہے کہ طاقت اور دباؤ پر مبنی پالیسیوں کا انجام اچھا نہیں ہوتا۔ ایک بات اور اہل ِ مدارس محسوس کرتے ہیں کہ 7 /7 کے بعد جس طرح برطانوی آرڈر کی تعمیل میں مدارس کے خلاف کریک ڈاون کیا گیا تھا اِسی طرح اِن دنوں بھی مغربی آقاؤں کی خوشنودی کے لیے مدارس کو تنگ کیا جا رہا ہے، حالیہ دنوں میں متعدد مدارس پر چھاپے مارے گئے اسلام آباد کے ایک مدرسہ میں کمانڈوز حساس اِداروں اور پولیس کی بھاری نفری نے اِس انداز سے یلغار کی جیسے انڈین فوج کشمیر کی کسی بستی پر لشکر کشی کیا کرتی ہے، جب اُن لوگوں سے اِس'' یلغار'' کی وجہ معلوم کی گئی تو اُنہوں نے بتایا کہ وہ ایک ایسے طالب علم کے تلاش میں آئے ہیں جو لال مسجد میں زیر ِ تعلیم تھا اور آپریشن سائلنس کے دوران اُس پر مقدمات بنائے گئے اور اُس کے جملہ کوائف کا ریکارڈ سیکورٹی اِداروں کے پاس موجود ہے اَور وہ صرف دو دن قبل عدالت میں بھی پیش ہوا تھا۔ عدالت میں پیشی کے موقع پر بھی اُس کی گرفتاری کے احکامات جاری کیے جا سکتے تھے اُسے سانحہ لال مسجد سے اَب تک گزرنے والے پونے دو برسوں کے دوران کہیں سے بھی حراست میں لیا جا سکتا تھااگر اُس سے کوئی اور جرم سرزد ہوا تو صرف دو پولیس اہلکار آکر مدرسہ انتظامیہ سے اُس طالب علم کو حوالے کرنے کا مطالبہ کر سکتے تھے، اِس معاملے پر وفاق المدارس سے رُجوع کیا جا سکتا تھا لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا اور اُس مدرسے پر یلغار کردی گئی اِس یلغار کا اَنداز بتاتا ہے کہ یہ سب کچھ بد نیتی پر مبنی ہے یہ تو صرف ایک مثال ہے ورنہ اِس وقت ملک کے تقریبًا اکثر اِداروں کو اِسی قسم کی صورت ِحال کا سامنا ہے ۔ اسلام آباد ہی کے ایک دینی اِدارے میں حساس اِداروں کے اہلکار نماز ِ فجر سے قبل آدھمکے اور مدرسہ انتظامیہ سے ایک طالب علم کے بارے میں پوچھ گچھ کی اور اُسے ساتھ لے جانے کا مطالبہ کیا انتظامیہ نے لاکھ کہا کہ یہ طالب علم ہماری ذمہ داری میں ہے آپ اِس کے بارے میں کوئی ثبوت پیش کریں، کوئی پوچھ