ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون2009 |
اكستان |
|
کسی کتاب میں آپ کو یہ مل جائے تو ٹھیک ہے ورنہ اِس انداز ِ فکر سے توبہ کرنی چاہیے یہ بے دلیل اور فرضی باتیں ہیں۔ (١١) آپ نے نسائی شریف کے حوالہ سے چو تھی روایت ابو سلمہ عن عائشہ بھی ظا ہر فرمادی۔ مگر یہاں آپ نے پھر اپنے منفی ومتا ثر انداز ِ فکر کو دخل دے کر یہ فرما دیا کہ صحاح ستہ میں سے صرف ایک مصنف کے بیان سے یہ روایت شہرت کے درجہ کو نہیں پہنچ جاتی۔ ٭ میں اِس منفی انداز ِ فکر سے متا ثر نہیں ہو سکتا بلکہ جناب سے عرض کروں گا کہ اِس انداز ِ فکر کو چھوڑ دیں۔ یہ اسلاف کا انداز ِ فکرنہیں ہے۔ ہمارے یہاں اِس انداز ِ فکر کی تر ویج سر سید نے کی ہے۔ خلاصہ یہ ہوا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اُن کی اِس حدیث کو سننے والے چار حضرات تو صرف صحاح ستہ میںموجود ہیں۔ باقی اور جو ہیں اُن سے آپ بحث نہیں فرماتے کیونکہ دائرہ تحقیق صحاح ستہ ہی میں محصور رکھنا چا ہتے ہیں۔ اور اُن میں بھی آپ بخاری کو مدلس اور کتاب مسلم فُلان مِنَ الشِّیْعَةِ وغیرہ پہلے لکھ چکے ہیں گویا یہ کتابیں آپ پہلے بیکار کر چکے ہیں غرض بہر قیمت اپنا مفروضہ ثابت کرنے کا تہیہ کیے ہوئے ہیں۔آپ نے ١٢، ١٣، ١٤ میں بھی اِسی منفی اندا زِ فکر کا اظہار فرمایا ہے۔ (١٥) میں تحریر فرماتے ہیں کہ کتاب میں آنے کے بعد وہ روایت متواتر ہو جاتی ہے۔ یہ بات خود آپ کے مؤقف کے خلاف جاتی ہے۔ اِس پر میں قدیم مصنفات کے طرف توجہ دلاتا ہوں کہ اِس قاعدہ سے دُوسری سندیں بھی توا تر سے ثابت ہیں لیکن آپ کا دائرہ کار بعد کی صحاح ستہ ہیں۔ (١٦) میں اصول ِ حدیث میں سے ایک قاعدہ ہے ۔ ( ١٧) اور اس کے الف ، ب ، ج سب میں آپ نے اپنا مفروضہ ثابت کرنے کی کو شش فرمائی ہے کہ اِسے کسی طرح خبر واحد تسلیم کر ائیں اور اِس میں اَصل اَور متابع پیدا کر ڈالیں کہ فلاں نے پہلے یہ روایت لکھی بعد میں دُوسری روایت لکھی لہٰذا وہ اِس کے نزدیک بعد کی ہوئی یا فقط مؤید ہوئی۔ اور سند واحد عن واحد ہے اسی بات کا بار بار اعادہ چل رہا ہے۔ لیکن اتنی سندیں واحد عن واحد ہوجائیں تو اصول ِ حدیث کی رُو سے اسے متواتر کہا جائے گا جیسے ١ تا ٣ میں عرض کر چکا ہوں۔ (١٩) (الف ) ''ابن ابی شیبہ نے اپنی انفرادیت ظا ہر کرنے کے لیے صرف روایت کو کا فی خیال کیا''