ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون2009 |
اكستان |
|
معلوم نہ تھی۔ تو ہو سکتا ہے کہ دُوسری روایات اِمام بخاری کو معلوم ہی نہ ہوں یا اُنہیں ایسی سند سے پہنچی ہوں جس کے رجال اُن کی شرائط پر نہ اُترتے ہوں۔ اُنہوں نے کہا اَحْفَظُ مِأَةَ اَلْفِ حَدِیْثٍ صَحِےْحٍ۔( مقدمہ ص ١٦) مجھے ایک لاکھ صحیح حدیثیں یاد ہیں جبکہ صحیح بخاری میں مکررات سمیت صرف سات ہزار دوسو پچھتر حدیثیں ہیں۔ (٨) میں بخاری ابو داؤد کتاب الام للشافعی کے ذکر کے بعد آپ نے تحریر فرمایا ہے کہ '' ان حضرات کے نزدیک اِس سند کے سواء اَور کسی سند سے یہ روایت ثابت ہی نہیں۔'' ٭ مجھے بھی مطلع فرمائیں کہ اُنہوں نے یہ کہاں لکھا ہے کہ اِس سند کے علاوہ اور کسی سند سے یہ روایت ثابت ہی نہیں۔ ورنہ اُن کی طرف آپ ایسی بات منسوب کر رہے ہیں جو آپ کے اپنے ذہن کی ہے اُن کی فرمودہ نہیں ہے۔ اپنی معلومات ضبط تحریر میں لانا الگ بات ہے اَوردُوسری سند کی نفی کرنا با لکل جدا بات ہے، اُنہوں نے دُوسری سندوں کی نفی ہر گز نہیں کی۔ (٩) آپ نے فرمایا ہے کہ'' اِمام مسلم نے حضرت عروہ عن عائشہ اور حضرت اسود عن عائشہ دُونوں روایتیں دی ہیں۔ اُن کے نزدیک یہ دو راوی ہیں باقی کو اُنہوں نے نا قابل ِ اعتبار خیال کر کے ترک کردیا۔'' ٭ سبحان اللہ! یہ بھی عجیب بات ہے ۔ اِمام مسلم کا یہ مقولہ ہر حنفی عالم جانتا ہے اور دہراتا ہے کہ ''میں نے ہرحدیث جو میرے نزدیک صحیح ہو اپنی اِس کتاب میں جمع نہیں کر ڈالی'' اِنَّمَا وَضَعْتُ ھٰھُنَا مَااَجْمَعُوْا۔ (مقدمہ ص ١٦) اگر اُنہوں نے یہ دعوی کیا ہوتا کہ جو حدیث میری اِس کتاب میں نہیں ہے وہ میرے نزدیک قابل ِ اعتبار ہی نہیں تب آپ کی بات دُرست ہو سکتی تھی اُنہوں نے آپ کی بات کے بر عکس صراحت کردی ہے مگر آپ پھر بھی اپنی مفروضہ بات دہرا رہے ہیں جو بے اَصل ہے یہ بات آپ کی شان سے بعید ہے۔ (١٠) آہستہ آہستہ آپ نے ابن ماجہ کے حوالہ سے تیسرے راوی ابو عبیدہ سے بھی روایت کا ثبوت مان لیا، مگر اَنداز ِفکر کی غلطی بدستورنمایا ں ہے کہ ''ابن ماجہ نے روایت اسود کو قابل ِاعتبار خیال نہیں کیا'' مہربانی فرماکر یہ بھی تحریر فرمائیں کہ ابن ماجہ نے یہ کہاں فرمایا ہے کہ روایت ِ اسود میرے نزدیک قابل ِ اعتبار نہیں ۔ اگر