ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون2009 |
اكستان |
|
الغرض : آپ نے اپنے نزدیک یہ سمجھا ہے کہ تواتر، شہرت اَور خبر ِ واحد ہونے کے لیے خاص جناب رسول اللہ ۖ کا قول وفعل ہی ہونا ضروری ہے اور تعدد رُواة میں ضروری ہے کہ وہ بھی صحابہ ہوں اور اُن ہی کی تعداد پر تواتر وشہرت وغیرہ کا مدار ہے۔ یہی آپ کے استدلال کی قوی ترین بنیاد ہے جو بالکل غلط ہے اِس پر ثریا تک تعمیر دُرست نہ ہو پائے گی۔ (٢) آپ نے تحریر فرمایا ہے اور پھر ص ٥ نمبر ١٨ میں بھی دہرایا ہے کہ '' اَب میں اِس سلسلہ میں صحاح ستہ کے حوالجات قبول کروں گا اِس کے بعد کتاب الام ،دارمی اور مسند ِ امام احمد کے۔'' ٭ اِس کے بارے میں عرض ہے کہ پھر آپ اپنی اِس تالیف کو انتخاب کا نام تو دے سکتے ہیں تحقیق کا نام نہیں دے سکتے۔ حالانکہ آپ نے ٢٠ ستمبر ٨٠ ء کے خط میں تحریر فرمایا تھا کہ یہ تحقیق ہے۔ ایک مدرس اور محقق میں یہی فرق ہے محقق کو تحقیق کے بعد کسی متعین اور ٹھوس نتیجہ تک پہنچنا ضروری ہے۔اسی طرح اور بھی گرامی ناموں میں کئی جگہ تحقیق پر زور دیا گیا ہے۔ اگر بقیہ کتابوں کو آپ نکالیں گے تو یہ تحقیق مکمل کیسے ہوگی۔ (٣) میں نے ایک صاحب کے کہنے پر اِسی موضوع پر علامہ سید سلیمان ندوی رحمة اللہ علیہ کی کتاب منگائی اُس کے مطالعہ سے اَندازہ ہوا کہ سب سے پہلے اِس بحث کو اُٹھانے والا محمد علی مرزائی تھا حرم نبوی میں جھانک کر تبصرہ کی گستاخی اِسی شخص نے کی۔ سید صاحب نے اِس کا جواب تحریر فرمادیا۔ مجھے خیال آرہا ہے کہ وہ آپ کے زمانہ تعلیم کا آخری دور یا فراغت کے فورًا بعد کا دَور تھا۔ اُس نے وسوسہ کی طرح آپ کو گھیر لیا اَور اَب تک نہیں چھوڑا۔ اور آپ کا اَصل ذوق فلسفہ اور منطق سے تھا عقلیات کے غلونے نقصان دیا ورنہ آپ کے پاس یہ خیالات کیسے پہنچے ؟ اور اِس تحقیق میں پڑنے کاداعیہ کونسی چیز بنی ؟ اگر واقعی ایسا ہوا ہے تو اِس کا علاج تو اس مسئلہ میں گھسنا نہیں ہے بلکہ دُوسرے اَور کسی کام میں لگنا ہے۔ (٤) میں آپ نے فرمایاہے کہ'' روایت ِ تزوج اپنی ماہیت کے اعتبار سے خبر واحد میں شامل ہے کیونکہ یہ خبر متواتر تو ہے نہیں۔ متواتر میں تو شروع ہی سے بیان کرنے والوں کی بڑی تعداد ہوتی ہے جن کا جھوٹ پر جمع ہونا بھول جانا، دھوکہ دینا مستبعد ہوتا ہے اِس روایت کی یہ شان نہیں۔'' ٭ کیوں؟ اِس روایت کی یہ شان کیوں نہیں ہے جبکہ روایت کرنے والے چار سے زائد ہیں۔ (٥) ترمذی میں روایت کے نہ آنے سے یہ سمجھنا کہ یہ اُن کے نزدیک قابل ِ اعتناء نہ تھی یا اُس میں