ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون2009 |
اكستان |
|
مَاعُرِفَ مِثْلُہ فِی الْمَرْفُوْعِ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ۖ ۔ وَمَا ذَکَرْنَاہُ مِنْ تَخْصِیْصِہ بِالصَّحَابِیْ فَذَالِکَ اِذَا ذُکِرَ الْمَوْقُوْفُ مُطْلَقًا وَقَدْ یُسْتَعْمَلُ مُقَیَّدًا فِیْ غَیْرِالصَّحَابِیْ فَیُقَالُ '' حَدِیْثُ کَذَا وَکَذَا وَقَفَہ فُلَان عَلٰی عَطَائٍ اَوْ عَلٰی طَاؤُسٍ اَوْ نَحْوِ ھٰذَا '' وَمَوْجُوْد فِیْ اِصْطِلَاحِ الْفُقَہَائِ الْخَرَاسَانِیِّیْنَ تَعْرِیْفُ الْمَوْقُوْفِ بِاِسْمِ الْاَثَرِ قَالَ اَبُو الْقَاسِمِ الْفَوْرَانِیْ مِنْھُمْ فِیْمَا بَلَغَنَا عَنْہُ ۔ اَلْفُقَھَائُ یَقُوْلُوْنَ '' اَلْخَبَرُ مَا یُرْ ٰوی عَنِ النَّبِیِّ ۖ وَالْاَثَرُ مَا یُرْوٰی عَنِ الصَّحَابَةِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ ۔( مقدمہ ابن الصلاح ص ٤١ و ٤٢ ) (٢) پھر متابعت کی ضرورت وہاں ہوتی ہے جہاں صرف ایک راوی اور ایک سند مل رہی ہو۔یعنی تفرد وغرابت پائی جا رہی ہو۔ اور یہاں غرابت نہیں پائی جا رہی ۔ تفرد اور غرابت کا مدار تابعی پر ہے کہ وہ ایک ہے یا زائد ہیں۔ نخبة الفکر ہی میں ملاحظہ فرمائیں ثُمَّ الْغَرَابَةُ ص ٢٢ سے بہت آگے تک۔اور اِس حدیث میں تابعین سے نیچے کم رہے ہیں یا تعداد پوری رہی ہے تو یہاں حضرت عائشہ سے سننے والے بھی بہت ہیں اور آگے بڑھتے ہی چلے گئے ہیں۔ اور یوں ہی سنی سنائی بات نہیں ہے کہ اپنی عقل سے کسی نے گھڑھ لی ہو بلکہ حضرت عائشہ کی بیان کردہ بات ہے۔ (٣) یہ حدیث یا متواترمانی جائے گی کیونکہ حضرت عائشہ سے اِس کے راوی اِتنے ہو گئے ہیں کہ عادةً اُن کا غلط بات پر متفق ہونا محال ہے۔ اور ایسا بھی نہیں ہے کہ ایسے ایسے جلیل القدر حضرات سے اِتفاقًا ایسی بات نکل گئی ہو۔ آپ نے لکھا تھا کہ'' ابن ہمام رحمة اللہ علیہ نے اسے خبر ِ متواتر فرمایا ہے۔'' اور میں ابن حزم کا حوالہ لکھ رہا ہوں اُنہوں نے اِسے اَمر ِ مشہور قرار دیا ہے اور کوئی سند معین نہیں کی۔ قَالَ اَبُوْ مُحَمَّدٍ اَلْحُجَّةُ فِیْ اِجَازَةِ اِنْکَاحِ الْاَبِ اِبْنَتَہُ الصَّغِیْرَةَ اَلْبِکْرَ اِنْکَاحُ اَبِیْ بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ اَلنَّبِیَّ ۖ مِنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا وَھِیَ بِنْتُ سِتِّ سِنِیْنَ........ وَھٰذَا اَمْر مَشْہُوْر غَنِیًّا عَنْ اِیْرَادِ الْاِسْنَادِ فِیْہِ ۔ (المحلٰی ج ٦ الجزء التاسع ص ٥٦١)