ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون2009 |
اكستان |
|
کوئی علّت تھی محض آپ کا خیال ہے۔ اِمام ترمذی کی کتاب العلل موجود ہے۔ اگر اس میں علت ہوتی تو وہ ذکر کرتے اور اگر اِمام ترمذی بھول گئے تھے دُوسرے ائمہ حدیث کی کتب ِعلل موجود ہیں کوئی تو اِسے معلول کہتا۔ صحیح بخاری کے ایسے ایسے بڑے حضرات شارح ہیں جو خود ائمہ حدیث ہیں وہ ذکر کرتے۔امام بخاری پر تنقید کرنے والے بھی گزرے ہیں۔ اگر یہ روایت معلول ہوتی تو دار ِ قطنی کچھ توکہتے۔ رہا یہ امر کہ یہ روایت امام ترمذی کے ہاں قابل ِ اعتناء نہ تھی اِس لیے اپنی کتاب میں نہیں لکھی ،محض آپ کا خیال ہے ۔ آپ نے پہلے بھی ایسے خیالا ت تحریرفرمائے تھے میں نے اُن کا جواب دیا تھاکہ اِن حضرات نے یہ ملحوظ رکھا ہے کہ جو حدیثیں دُوسرے محدث لکھ چکے ہیں اُن سے زائد اور کسی اعتبار سے مختلف روایات لائیں نہ یہ کہ بیٹھ کر وہی حدیثیں لکھ دیں جو اُستادوں کی کتابوں میں آچکی ہوں۔اگر یہ لوگ ایسا کرتے تو اُن کا کوئی کمال نہ ہوتا نہ اُن کی کتاب جدا کتاب ہوتی نہ یہ جدا اِمام تسلیم کیے جاتے نہ ذخیرہ ٔ حدیث میں اِضافہ ہوتا پہلے بھی ایک عریضہ میں یہ بات لکھ چکا ہوں مگر آپ بار بار اِس بدیہی بات سے ہٹ کر دُوسری تو جیہہ کی طرف ہی جاتے ہیں۔ روایات نہ لینے کی باتیں بھی ملاحظہ فرمائیں۔ بقول حافظ زاہد الکوثری رحمة اللہ علیہ : (الف ) اِمام بخاری اور اِمام مسلم نے اِمام اعظم (رحمة اللہ علیہم) سے کوئی روایت نہیں لی حالانکہ اِن دونوں نے اِمام اعظم کے چھوٹے شاگردوں کازمانہ پایا ہے اور اُن سے روایت لی ہے۔ (ب) اِن دونوں نے امام شافعی سے کوئی روایت صحیحین میں نہیں لکھی باجودیکہ وہ اُن کے بعض شاگردں سے ملے ہیں۔ (ج) امام مسلم نے اپنی صحیح میں امام بخاری سے ایک بھی روایت نہیں لکھی حالانکہ وہ اُن کے ساتھ رہے اور اُنہوں نے اپنی کتاب اُن کی کتاب کے طرز پر لکھی۔ (د) امام بخاری نے اِ مام احمد سے صرف دو حدیثیں لکھی ہیں ایک تعلیقًا اَور دُوسری با لواسطہ حالانکہ اُنہوں نے اِمام احمد کی شاگردی میں وقت گزارا ہے۔ اِن حضرات کے اِس معاملہ کی وجہ اُن کی امانت ودیانت کے پیش ِ نظر یہ ماننی پڑے گی کہ جو روایتیں پہلے حضرات لکھ چکے تھے اور محفوظ ہو چکی تھیں اُنہیں چھوڑ کر دُوسری روایات لکھنی پسند کی ہیں تاکہ وہ محفوظ ہو جائیں۔