ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2009 |
اكستان |
|
دس محرم اوراُس کے روزہ کی شرعی و تاریخی حیثیت واہمیت : عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ کَانُوْا یَصُوْمُوْنَ عَاشُوْرَائَ قَبْلَ اَنْ یَّفْرُضَ رَمَضَانَ وَکَانَ یَوْمًا تُسْتَرُ فِیْہِ الْکَعْبَةُ فَلَمَّا فَرَضَ اللّٰہُ رَمَضَانَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ۖ مَنْ شَآئَ اَنْ یَّصُوْمَہ فَلْیَصُمْہُ وَمَنْ شَآئَ اَنْ یَّتْرُکَہ فَلْیَتْرُکْہُ۔ (بخاری فی الحج ، صحیح مسلم فی الصیام ، ترمذی فی الصوم، ابوداؤد فی الصوم ، موطاء امام مالک فی الصیام ، دارمی فی الصوم و مسنداحمد) '' اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رمضان کے روزے فرض ہونے سے پہلے لوگ دس محرم کے دن کا روزہ رکھا کرتے تھے اوردس محرم کے دن کعبہ کو غلاف بھی پہنایا جاتا تھا پھر جب اللہ تعالیٰ نے رمضان کے روزے فرض فرمادِیے تو رسول اللہ ۖنے فرمایا کہ جو شخص دس محرم کا روزہ رکھنا چاہے وہ رکھ لے اور جو چھوڑنا چاہے وہ چھوڑدے''۔ عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ کَانَ یَوْمُ عَاشُوْرَآئَ تَصُوْمُہ قُرَیْش فِی الْجَاھِلِےَّةِ وَکَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ۖ یَصُوْمُہ فَلَمَّا قَدِمَ الْمَدِیْنَةَ صَامَہ وَأَمَرَبِصِیَامِہ فَلَمَّا فُرِضَ رَمَضَانُ تَرَکَ یَوْمَ عَاشُوْرَآئَ فَمَنْ شَآئَ صَامَہ وَمَنْ شَآئَ تَرَکَہ۔ (صحیح بخاری فی الصیام واللفظ لہ صحیح مسلم فی الصوم) ''حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ قریش مکہ زمانۂ جاہلیت میں دس محرم کے دن روز ہ رکھتے تھے اور رسول اللہ ۖ بھی روزہ رکھتے تھے۔ پھر جب آپ ہجرت فرماکر مدینہ تشریف لائے تووہاں خود اِس کاروزہ رکھا اوردُوسروں کوبھی روزہ رکھنے کا حکم دیا۔پھر جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو دس محرم کے دن روزہ رکھناچھوڑ دیا جس کی خواہش ہوتی اُس دن روزہ رکھتا اورجو چاہتا اُس دن روزہ نہ رکھتا ''۔ فائدہ : دس محرم کا روزہ رکھنا ابتدائِ اسلام میں رمضان کے روزے فرض ہونے سے پہلے فرض تھا