ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2009 |
اكستان |
|
عَنْ اَبِیْ مُوْسٰی قَالَ کَانَ یَوْمُ عَاشُوْرَآئَ یَوْمًا تُعَظِّمُہُ الْیَھُوْدُ وَتَتَّخِذُہ عِےْدًا فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ۖ صُوْمُوْہُ اَنْتُمْ۔(بخاری فی الصوم والمناقب، مسلم فی الصیام واللفظ لہ مسند احمد و شرح معانی الاٰثار ) '' حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ یہودی دس محرم کے دن کی بہت تعظیم کیا کرتے تھے اوراِس دن عید منایا کرتے تھے پس رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ تم اِس دن روزہ رکھو۔'' تنہا دس محرم کا روزہ : عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍقَالَ حِیْنَ صَامَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ۖ یَوْمَ عَاشُوْرَائَ وَاَمَرَ بِصِیَامِہ قَالُوْا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ ! اِنَّہ یَوْم تُعَظِّمُہُ الْیَھُوْدُ وَالنَّصَارٰی فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ فَاِذَا کَانَ الْعَامُ الْمُقْبِلُ اِنَ شَآئَ اللّٰہُ صُمْنَا الْیَوْمَ التَّاسِعَ قَالَ فَلَمْ یَأْتِ الْعَامُ الْمُقْبِلُ حَتّٰی تُوُفِّیَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ۖ ۔ (مسلم وابوداود )۔ ١ ''حضرت ابن ِعباس فرماتے ہیں کہ جس وقت رسول اللہ ۖ نے دس محرم کے دن روزہ رکھا اور صحابہ کوبھی اِس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا تو صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! یہ ایسا دن ہے کہ یہودونصارٰی اِس کی بہت تعظیم کرتے ہیں (اورروزہ رکھ کر ہم اِس دن کی تعظیم کرنے میں یہودونصارٰی کی موافقت کرنے لگتے ہیں جبکہ ہمارے اوراُن کے دین میں بڑا فرق ہے )۔ آپ نے فرمایا کہ آئندہ سال اِنشاء اللہ ہم نویں تاریخ کو (بھی) روزہ رکھیں گے۔ حضرت ابن ِعباس فرماتے ہیں کہ آئندہ سال محرم سے پہلے ہی (ربیع الاول ) آپ کاوصال ہوگیا''۔ ١ بعض حضرات کو اس حدیث سے مغالطہ لگا ہے کہ عاشوراء کا روزہ صرف نویں تاریخ کو رکھنا چاہیے حالانکہ اس حدیث کا صحیح مطلب یہ ہے کہ صرف دسویں تاریخ کا تنہا روزہ نہ رکھا جائے بلکہ اس کے ساتھ نویں تاریخ کا بھی روزہ ملا لیا جائے یا پھر دسویں کے ساتھ گیارہویں تاریخ کا روزہ ملالیا جائے ان دونوں باتوں کی تائید اور وضاحت خود حضرت ابن عباس کی دوسری روایات سے ہوتی ہے جو کہ آگے آرہی ہیں ۔