ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2009 |
اكستان |
|
دینی مسائل ( طلاق دینے کا بیان ) ٢۔ طلاقِ کنایہ : یعنی ایسے الفاظ سے طلاق دینا جن میں طلاق کا مطلب بھی بن سکتا ہے اور طلاق کے علاوہ دُوسرا معنٰی بھی نکل سکتاہے جیسے کوئی اپنی بیوی کو کہے میں نے تجھ کو دُور کردیا تو اِس کا مطلب ایک تو یہ ہے کہ میں نے تجھ کو طلاق دے کر دُور کردیا اور دُوسرا مطلب یہ ہے کہ طلاق تو نہیں دی لیکن اَب تجھ کو اپنے پاس نہ رکھوں گا ہمیشہ اپنے میکے میں پڑی رہ تیری خبر نہ لوں گا۔ غرض تجھے دُور کردیا یا اِس قسم کے اور الفاظ کو خود اُن کے اپنے معنی تو صاف ہیں لیکن دُور کرنا کس اِعتبار سے مرادہے یہ مخفی ہے اِس لیے اِس کو'' کنایہ'' کہتے ہیں۔ چونکہ اِن الفاظ میں دو مطلب نکل سکتے ہیں اِس لیے جب شوہر طلاق کی نیت سے یہ الفاظ کہے تو طلاق کا معنی متعین ہوجا تا ہے اور فی الواقع اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک طلاق واقع ہوجاتی ہے اور اگر اُس نے نیت نہ کی ہو تو فی الواقع طلاق نہ ہوگی لیکن چونکہ دُوسرے اِنسانوں کی نیت تک براہ ِ راست رسائی حاصل نہیں ہوسکتی اور اِس تہمت کا اِحتمال ہے کہ کوئی شخص اپنا نقصان محسوس کرکے طلاق کی نیت کا اِنکار کردے اِس لیے عدالت کے نزدیک طلاق پر دلالت کر نے والے اور قرائن ہوں گے تو اُن کا اِعتبار ہوگا۔ عدالت کے نزدیک اِس کے تین قرائن ہیں : (1) شوہرکا نیت ِطلاق کی خبر دینا۔ (2) وہ الفاظ کے کہنے وقت شوہر کا غصہ میں ہونا۔ (3) وہ الفاظ کہے جانے سے پیشتریا تو شوہر سے بیوی نے یا کسی اجنبی نے طلاق کا مطالبہ کیا ہو یا شوہر نے اُس مجلس میں پہلے طلاق دی ہو اِس کو مذاکرہ طلاق کی حالت میں تعبیر کرتے ہیں۔ اِن قرائن سے معلوم ہوا کہ جب شوہر اِس قسم کے الفاظ کہے تو تین حالتیں ہو سکتی ہیں۔ (i) اعتدال کی حالت ہو۔ (ii) غصہ وغضب کی حالت ہو۔