ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2009 |
اكستان |
|
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے مناقب ( حضرت مولانا محمد عاشق الٰہی صاحب رحمة اللہ علیہ ) دینی تربیت : حضرت سرورِ عالَم ۖ اللہ جل شانہ' کی طرف سے اُمت کی تربیت اور تزکیۂ نفس کے لیے تشریف لائے تھے۔ تربیت اور تزکیہ میں آپ کسی کا لحاظ نہیں فرماتے تھے، اپنی اَزواج و اَولاد اور عزیز و اَقارب سب ہی کو اللہ تعالیٰ سے ڈراتے اور آخرت کا فکرمند بناتے تھے۔جب آیت کریمہ وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ (آپ اپنے نزدیک کے کنبہ کو ڈرائیے )نازل ہوئی تو سیّد ِ عالم ۖ نے اپنے رشتہ داروں اور خاندان والوں کو آخرت کے عذاب سے ڈرایا اور قبیلوں اور بعض رشتہ داروں کے نام لے کر فرمایا کہ اپنے آپ کو دوزخ سے بچائو میں تمہارے کچھ کام نہیں آئوں گا۔ ( مشکٰوة شریف ) صحیح بخاری و مسلم میں ہے کہ آپ ۖ نے اِس موقع پر فرمایا کہ اے قریش! اپنے نفسوں کو دوزخ سے بچالو میں اللہ کے معاملہ میں تمہارے کچھ کام نہ آئوں گا اور بنی عبد مناف سے بھی یہی فرمایا۔ پھر فرمایا کہ اے عباس! میں اللہ کے معاملے میں تمہارے کچھ کام نہ آئوں گا (اپنے کو دوزخ سے بچائو) ۔اے صفیہ ! (جو اللہ کے رسول ۖ کی پھوپھی ہیں) میں اللہ کے معاملے میں تمہارے کچھ کام نہیں آئوں گا (اپنے کو دوزخ سے بچائو)۔ اے محمد ۖ کی بیٹی فاطمہ( رضی اللہ عنہا) میرے مال میں سے تم جو چاہو سوال کرلو میں اللہ کے معاملہ میں کچھ کا م نہیں آئوں گا(اپنے کو دوزخ سے بچائو)۔ ١ آنحضرت ۖ نے حضرت سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شادی کردینے کے بعد بھی دینی تربیت کا ١ یعنی خود نیک کام کرو اور اللہ تعالیٰ کے احکام کے خلاف مت چلو۔ اللہ تعالیٰ نے عذاب دینا چاہا تو میں نہیں چھوڑا سکوں گا۔ اِس کا مطلب سفارش کی نفی نہیں ہے بلکہ عمل پر اُبھارنا مقصود ہے اور جس کی شفاعت کی جائے اُس کو بھی تو لائق ِسفارش ہونا ضروری ہے۔ جو مؤمن نہ ہوگا اُس کی تو سفارش ہی نہ ہوگی۔