ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2009 |
اكستان |
|
وَاَنْزَلْنَا الْحَدِیْدَ ( اَورہم نے لوہااُتارا) ( جناب سیداَورنگزیب شاہ صاحب،ہری پور ) پروفیسرآرم اسٹرانگ ایک نامور سائنسدان ناسامیں کام کرتے ہیں۔ اُن سے جب پوچھاگیاکہ لوہاکیسے بناتواُنہوں نے بتایاکہ حال ہی میں سائنسدانوں کواُس کی بناوٹ کے بارے میں کچھ حقائق معلوم ہوئے ہیں۔اُنہوں نے کہاکہ قدیم نظام ِشمسی کی توانائی غیرمرکب یابنیادی لوہابنانے کے لیے ناکافی تھی یعنی جب ابتداء میں زمین وجودمیں آئی تواُس کے اَندرجتنی بھی حرارت تھی وہ حرارت لوہے کی پروڈکشن کے لیے کافی نہیں تھی اُس قوت کااَندازہ کرتے ہوئے جولوہے کاایک ذرہ بنانے کے لیے درکارتھی۔ جب سائنسدانوں نے اِس کااندازہ کیاکہ لوہے کاایک ذرہ بنانے کے لیے کتنی ہیٹ چاہیے تواُنہیں پتا چلاکہ یہ ہیٹ (Heat ) تواُس سیارے کے اندرہی نہیں یہاں لوہابن ہی نہیں سکتا۔ پھرپتا چلاکہ یہ قوت پورے نظامِ شمسی کی قوت سے چارگنازیادہ ہے۔ ہماراجوسولرسسٹم ( Solar System ) ہے اُس کے اَندر جتنی بھی اِنرجی پائی جاتی ہے اُس سے چارگنازیادہ اِنرجی لوہابنانے کے لیے درکارہے ۔ دُوسرے معنوں میں زمین چاند اور مریخ کی توانائی لوہے کے ایک ذرے کی تخلیق کے لیے بھی کافی نہیں کیونکہ لوہاوہاں بنتاہے جہاں درجہ حرارت کئی سوملین ڈگری تک پہنچ جاتاہو اوروہ اِس سولرسسٹم میں کہیں بھی نہیں۔اِس پرسائنسدانوں کاخیال یہ ہے یہ کہ لوہاایک غیرمادی چیزہے جواِس دُنیامیں بھیجی گئی ہے اِس دُنیامیں بنتی نہیں۔ قرآن پاک میں آتاہے وانزلناالحدید اورہم نے لوہااتارا(انزل کامعنی ہے اُوپرسے نیچے آناجس طرح بارش اُوپرسے نیچے آتی ہے) تویہ بات محض میٹافوریکلی نہیں کہی گئی اِس کے اندرایک بہت بڑی حقیقت ہے۔ یہ بھی خیال کیاجاتاہے کہ خلامیں جوسیارے پھٹتے ہیں اوراُن کے ٹکڑے شہاب ثاقب کی طرح زمین میں پیوست ہوتے ہیں۔ حقیقت کاعلم خداہی کوہے لیکن یہ بات اب مان لی گئی ہے کہ لوہااِس زمین کی پیداوارہے ہی نہیں۔ مزیدحیرت انگیزبات یہ ہے کہ سورة الحدیدقرآن پاک کی 57 ویں سورة ہے۔ اورالحدیدکی ابجد کے حساب سے عددی قیمت 7 5 ہے۔ حدیدکی عددی قیمت 26ہے اورلوہے کا ایٹمی عدد 26 ہے ۔٭٭٭