ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2009 |
اكستان |
|
مذاکرہ طلاق کی حالت ہو۔ غصہ وغضب کی حالت میں جہاں یہ احتمال ہے کہ شوہر کا طلاق دینے کا اِرادہ ہو وہاں یہ بھی احتمال ہے کہ غصہ میں محض گالم گلوچ مراد ہو طلاق کی نیت نہ ہو۔ اِسی طرح مذاکرہ طلاق میں یعنی طلاق کے مطالبہ پر کبھی تو شوہر طلاق دے دیتا ہے اور کبھی مسترد کردیتا ہے۔ اِسی طرح کنایہ کے الفاظ کی بھی تین قسمیں بنتی ہیں : پہلی قسم : وہ الفاظ جن میں طلاق کے معنی کابھی احتمال ہے اور طلاق کے مطالبہ کو مسترد کرنے کا معنی کا بھی احتمال ہے مثلاً کہا تو نکل جا یعنی تو نکل جا کیونکہ میں نے تجھے طلاق دے دی ہے اور تو نکل جا اور مجھ سے طلاق کا مطالبہ نہ کر۔ اِسی طرح کے الفاظ یہ بھی ہیں :تو اُٹھ کھڑی ہو، تو دُور ہوجا ،توچلی جا۔ دُوسری قسم : وہ الفاظ جن میں طلاق کا معنی بھی نکلتا ہے اور گالم گلوچ کا معنی بھی نکلتا ہے۔ مثلاً تو میرے کام کی نہیں تو بیکارہے یا اِس وجہ سے کہ میں تجھے طلاق دے چکا ہوں اِس قسم کی کچھ اور مثالیں یہ ہیں: میں تیرا میاں نہ تو میری بیوی ، نہ تو میری کچھ لگتی ہے نہ میرا تیرا کچھ، میرا تیرا کوئی واسطہ نہیں، میں تجھ سے بیزار ہوں، میں تیرا رَوادار نہیں، تو میرے کام کی نہیں رہی۔ تیسری قسم : وہ الفاظ جن میں مطالبہ مسترد کرنے یا گالم گلوچ کا معنی نہ نکلتا ہومثلاً میں نے تجھ سے جدائی اختیار کرلی یا تیرا معاملہ تیرے حوالے ہے۔ تم اپنا دُوسرا نکاح کرلو۔ تجھے میری طرف سے جواب ہے۔ میں اِس کو ہرگز اپنے پاس نہ رکھوں گا۔ میں اِسے نہیں بساؤں گا۔ تو فارغ ہے۔ ضابطہ : 1 ۔ جب شوہر سکون اور اعتدال کی حالت میںہو اور اُس سے طلاق کا مطالبہ بھی نہ کیا جارہا ہو پھر وہ تینوں قسموں میں سے کسی بھی قسم کے الفاظ بولے تو اُس کی نیت معلوم کی جائے گی۔ اگر طلاق کی نیت ہو تو طلاق ہوگی ورنہ نہیں۔ 2 ۔ جب شوہر غصہ وغضب کی حالت میں ہو توپہلی دو قسموں کے الفاظ میں اُس کی نیت پوچھی جائے گی اور تیسری قسم کے الفاظ میں اُس کی نیت نہ پوچھی جائے گی اور غصہ کے قرینہ کی وجہ سے طلاق کے واقع ہونے کا حکم لگایا جائے گا۔ 3 ۔ جب مذاکرہ طلاق کی حالت ہوتو صرف پہلی قسم کے الفاظ میں شوہر کی نیت پوچھی جائے گی۔