ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2007 |
اكستان |
مسئلہ : تیل، کنگھی، صابن، وضو اور نہانے کا پانی مرد کے ذمّہ ہے اور سُرمہ مسی پانی تمباکو مرد کے ذمّہ نہیں۔ مسئلہ : عورت کے اپنے کپڑوں کی دُھلائی کے لیے دھوبی کی تنخواہ و اُجرت مرد کے ذمّہ نہیں۔ اپنے ہاتھ سے دھوئے اور پہنے اور اگر مرد دیدے تو اُس کا اِحسان ہے۔ مسئلہ : دائی جنائی کی مزدوری اُس پر ہے جس نے بلوایا۔ مرد نے بلایا ہو تو مرد پر اور عورت نے بلایا ہو تو اُس پر اور جو بغیر بلائے آگئی تو مرد پر ہے۔ بالفاظِ دیگر اگر مرد خود عورت کو لیڈی ڈاکٹر کے پاس یا ہسپتال لے گیا یا عورت سے کہا کہ وہ خود چلی جائے خرچہ وہ دے گا تو خرچہ مرد کے ذمّہ ہے اور اگر عورت اَز خود چلی گئی تو خرچہ عورت کے ذمّہ ہوگا۔ مسئلہ : جتنے زمانے تک شوہر کی اِجازت سے اپنے ماں باپ کے گھر رہے اُتنے زمانے کا روٹی کپڑا بھی مرد سے لے سکتی ہے۔ مسئلہ : عورت حج کرنے گئی تو اُتنے زمانے کا روٹی کپڑا مرد کے ذمّہ نہیں۔ البتہ اگر شوہر بھی ساتھ ہو تو اُس زمانہ کا خرچ بھی ملے گا لیکن روٹی کپڑے کا جتنا خرچ گھر میں ملتا تھا اُتنا ہی پانے کی مستحق ہے جو کچھ زیادہ لگے اپنے پاس سے لگائے اور ریل اور جہاز وغیرہ کا کرایہ بھی مرد کے ذمّہ نہیں ہے۔ مسئلہ : عورت بیمار پڑگئی تو بیماری کے زمانے کا روٹی کپڑا پانے کی مستحق ہے چاہے مرد کے گھر بیمار پڑے یا اپنے میکے میں، لیکن اگر بیماری کی حالت میں مرد نے بلایا پھر باوجود قدرت کے بھی نہیں آئی تو اَب اُس کے پانے کی مستحق نہیں رہی اور بیماری کی حالت میں فقط روٹی کپڑے کا خرچ ملے گا۔ مسئلہ : اگر باپ بہت بیمار ہے اور اُس کا کوئی خبر لینے والا نہیں تو ضرورت کے موافق وہاں روز جایا کرے۔ اگر باپ بے دین کافر ہو تب بھی یہی حکم ہے بلکہ اگر شوہر منع بھی کرے تب بھی جانا چاہیے لیکن شوہر کے منع کرنے پر جانے سے روٹی کپڑے کا حق نہ رہے گا۔ مسئلہ : جتنا مہر پہلے دینے کا دستور ہے یا پہلے دینا طے ہوا ہے وہ مرد نے نہیں دیا اِس لیے عورت مرد کے گھر نہیں جاتی تو اُس کو روٹی کپڑا دلایا جائے گا اور اگر یوں ہی بے وجہ مرد کے گھر نہ جاتی ہو تو روٹی کپڑا پانے کی مستحق نہیں ہے، جب سے جائے گی اُس وقت سے دلایا جائے گا۔( باقی صفحہ ٥٩ )