ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2006 |
اكستان |
|
سوال : بھائی عامر کو تو سننے میں آیا ہے کہ ٣مئی کو شہید کیا گیا۔ گرفتاری سے شہادت تک تقریباً ڈیڑھ ماہ بنتا ہے، آپ نے اتنے عرصہ میں کیا کوئی کوشش وغیرہ کی ہو اور حکمرانوں نے آپ سے کوئی وعدہ کیا ہو یا تعاون کیا ہو؟ جواب : عامر شہید کی کزن نے وہاں وکیل کیا تھا۔ اُس وکیل نے ٢مئی کو عامر سے ملاقات بھی کی تھی اور کچھ سامان کپڑے ٹوتھ پیسٹ وغیرہ بھی عامر کے حوالہ کیے تھے۔ ہمیں اُمید تھی کہ زیادہ سے زیادہ عامر کو ڈی پورٹ کردیا جائے گا کیونکہ چالیس دن بعد بھی برلن پولیس جرمن کی عدالت میں چالان پیش نہ کرسکی اور نہ ہی کارروائی شروع ہوئی اور میں نے ذاتی طور پہ سیاستدانوں میں سے پاکستان کی قومی اسمبلی کے رُکن ڈاکٹر فریدپراچہ سے گفتگو کی ۔انہوں نے پاکستان کے برلن میں واقع سفارت خانے کے فرسٹ سیکڑی خالد عثمان سے بات کی تو پتا چلا کہ واقعی عامر زیر تفتیش ہے۔ آخر میں اِن کے بھائی چچا منظور صاحب نے مجھ سے سوال کیا کہ بیٹا عامر نام کا کوئی جوان پہلے بھی اُمت میں گزرا ہے جس نے حب ِرسول ۖ کی خاطر قربانی دی ہو؟ میں نے کہا جی بزرگو! عامر بن جراح جو اس اُمت کے امین ابوعبیدہ بن جراح کے نام سے مشہور ہوئے۔ انہوں نے بھی غزوہ اُحد کے موقع پر جب آقا کے رُخساروں پہ خود کی کڑیاں چبھ گئی تھیں نکالی تو اپنے دونوں دانت شہید کروادیے تھے۔ لوگ دروازہ کھٹکھٹارہے تھے ہم نے اجازت چاہی اور عامر شہید کے والد کو مبارکباد دی اور واپس چل دیے۔ قارئین انوارِمدینہ کی خدمت میں اپیل ماہنامہ انوارِ مدینہ کے ممبر حضرات جن کو مستقل طورپر رسالہ ارسال کیا جارہا ہے لیکن عرصہ سے اُن کے واجبات موصول نہیں ہوئے اُن کی خدمت میں گزارش ہے کہ انوارِ مدینہ ایک دینی رسالہ ہے جو ایک دینی ادارہ سے وابستہ ہے اس کا فائدہ طرفین کا فائدہ ہے اور اس کا نقصان طرفین کا نقصان ہے اس لیے آپ سے گزارش ہے کہ اس رسالہ کی سرپرستی فرماتے ہوئے اپنا چندہ بھی ارسال فرمادیں اوردیگر احباب کوبھی اس کی خریداری کی طرف متوجہ فرمائیں تاکہ جہاں اس سے ادارہ کو فائدہ ہو وہاں آپ کے لیے بھی صدقہ جاریہ بن سکے۔(ادارہ)