ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2006 |
اكستان |
کرنے کے بعد نہایت حقارت کے ساتھ اِس کی لاش پر تھوکتے ہوئے اس نے کہا تھا: ''اِس خنزیر کے بچے نے میرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کی تھی اِس لیے میں نے اِسے قتل کیا ہے'' اس نے اپنی طرف سے وکیل صفائی پیش کرنے سے انکار کردیا، اقبال ِجرم پر سیشن کورٹ سے غازی عبد القیوم کو سزائے موت سنائی گئی تو وہ نوجوان مرد مجاہد اپنی خوشی اور مسرت ضبط نہ کرسکا اور بے اختیار اِس کی زبان سے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کی صدا بلند ہوئی۔ مسلمانوں نے جب اِس فیصلہ کے خلاف اپیل کرنا چاہی تو اُس نے ان سب کی منت سماجت کرتے ہوئے کہا: آپ لوگ مجھے دربارِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضری کی سعادت سے محروم کرنا چاہتے ہیں'' اور وہ اِس شعر کی مجسم تصویر بنا ہوا تھا دل پہ لیا ہے داغِ عشق کھوکے بہارِ زندگی اِک گلِ تر کے واسطے میں نے چمن لٹادیا فیصلہ جب توثیق کے لیے عدالت ِعالیہ کے سپرد ہوا اور اِس مرد غازی کی خواہش کے خلاف قانون کی توضیح اور تشریح کے لیے اپیل دائر کردی گئی تو اپیل کی سماعت کے دوران ہر پیشی پر اِس محمد کے غلام کے دیدار کے لیے مسلمانوں کا بے پناہ ہجوم موجود ہوتا جو اِس پر گل پاشی کیا کرتا تھا۔ بالآخر وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے اور اِسے بھی دوسرے غازیان ِملت کی طرح سزائے موت سنائی گئی جس کے لیے وہ بے چین اور مضطرب رہتا تھا اور یہی پروانۂ موت اِس کے لیے حیاتِ جاوید لے کر آیا۔ جب سزائے موت اس کو سنائی گئی تو اس نے ججوں سے مخاطب ہوکر کہا : ''مجھے اپنی خوش قسمتی پر ناز ہے کہ میرے ہاتھوں وہ خبیث جہنم رسید ا ہوا ، اور میرے رب نے مجھے شہادت جیسی نعمت سے سرفراز کیا۔ یہ ایک جان کیا چیز ہے اگر ایسی ہزاروں جانیں بھی ہوں تو وہ سب میرے آقا اور مولا پر قربان ہیں''۔ اس طرح اس مرد غازی کے لیے جو کچھ عرصہ قبل عروس نو بیاہ کر لایا تھا آج انشاء اللہ حورانِ جنت درہائے فردوس میں اِس کے استقبال کے لیے کھڑی تھیں۔ یہ بھی ایک عاشق کا جنازہ تھا۔ اس لیے بڑی دھوم سے نکلا اور ہزاروں مسلمان جب میوشاہ کے قبرستان اس شہید وفا کے جنازے کو لے جارہے تھے ایسے میں حکومت افرنگ کے فرعون مزاج فوجیوں نے عاشقان