ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2006 |
اكستان |
|
کے فوری بعد سحری کے لیے دستر خوان لگادیئے جاتے اور اعلان ہوجاتا تھا کہ تمام شرکاء سحری تناول کرلیں۔ سحری کے کھانے میں خوب فیاضی کا منظر ہوتا تھا جس میں عام طور پر قورمہ، سبزی کا سالن اور چاول، دہی دسترخوان کی زینت ہوتے تھے۔ اِس موقع پر بھی حضرتِ اقدس امیر الہند رحمة اللہ علیہ بنفس نفیس تشریف فرما ہوتے تھے۔ آپ سحر کے تناول کے لیے اُس وقت تک تشریف فرما نہیں ہوتے جب تک کہ تمام شرکاء کے سامنے کھانا نہیں پہنچ جاتا۔یہ کھانا پورا کا پورا خانقاہِ مدنیہ یعنی حضرتِ اقدس رحمة اللہ علیہ کی طرف سے ہی ہوتا تھا۔ تمام شرکاء کو آپ ذاتی مہمان سمجھتے تھے۔ نوٹ : شرکاء کی تعداد اول عشرہ میں چار سو سے پانچ سو تک ہوتی تھی۔ اِس میں اضافہ ہوتا رہتا حتی کہ دوسرے عشرہ کے نصف میں ایک ہزار سے متجاوز ہوجاتی اور یہ تعداد اختتام ِرمضان تک برقرار رہتی تھی۔ بالفاظ دیگر کہ جو یہاں آیا وہ اختتام رمضان تک واپس نہ گیا۔ سحری سے فراغت کے بعد فوری فجر کی اذان کا وقت ہوجاتا۔ نماز ِ فجر اول وقت یعنی اذان فجر کے پندہ منٹ بعد ادا کی جاتی۔ نمازِ فجر کے بعد تمام ذاکرین و سالکین آزاد ہوتے تھے یعنی تلاوت، ذکر اور مراقبہ میں اشراق تک مشغول رہتے اور ادائیگی اشراق کے بعد آرام کرتے تھے۔ نمازِ ظہر سے کچھ دیر قبل عام طور پر تمام ذاکرین سالکین آرام سے فراغت حاصل کرلیتے تھے اور نماز ظہر کی تیاری کرتے، مسجد میں پہنچ کر تلاوتِ قرآن میں مشغول ہوجاتے۔ نماز ظہر کی ادائیگی کے بعد دو حلقے ہوتے تھے، ایک حلقہ حضرتِ اقدس امیر الہند رحمة اللہ علیہ کے پاس ہوتا تھا جس کے شرکاء اپنے اذکار کے اسباق اور کیفیات تحریری طور پر پیش کرتے اور حضرت اقدس اسی ترغیب سے فرداً فرداً علیحدگی میں اُن کے جوابات ارشاد فرماتے تھے۔ دوسرا حلقہ حضرت مولانا سید محمود صاحب کے ہاں ہوتا ، اِس حلقہ میں حضرت مولانا محترم ''امداد السلوک'' مصنفہ فقیہِ اُمت، قطب الارشاد حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی نور اللہ مرقدہ کو تعلیماً سناتے تھے۔ یہ سلسلہ تقریباً گھنٹہ بھر جاری رہتا تھا، اس کے بعد شرکاء انفرادی طور پر تلاوتِ کلام پاک میں مشغول ہوجاتے جبکہ حفاظ کرام اپنی منزل کے دَور میں منہمک ہوجاتے۔ حضرتِ اقدس رحمة اللہ علیہ عام طور پر اُس وقت تلاوتِ کلام پاک میں مصروف رہتے تھے یہاں تک کہ