ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2006 |
اكستان |
|
صبح نماز مسجد نبوی میں ادا کی اور حضور ۖ کو اِس کی اطلاع دیتے ہوئے عرض کیا ،کیا مجھ سے کوئی مواخذہ تو نہیں ہوگا؟ فرمایا: نہیں۔ حضور ۖ کے پاس سے عمیر رضی اللہ عنہ لوٹ رہے تھے تو عصماء کے لڑکے نے کہا یہ ہماری ماں کا قاتل ہے۔ جواب میں کہا بیشک میں نے ہی اِسے قتل کیا ہے اور اگر کسی نے پھر ایسی جرأت کی تو اُسے بھی موت کا مزہ چکھائوں گا۔ حضور ۖ نے لوگوں سے فرمایا : اگر کوئی ایسے شخص کو دیکھنا چاہتا ہو جس نے اللہ اور اُس کے رسول ۖ کی غائبانہ مدد کی ہو تو وہ عمیر بن عدی کو دیکھے۔ یہ بھی ارشاد ہوا کہ اِن کو نابینا نہ کہو یہ بینا اور بصیر ہیں ۔وہ بیمار ہوئے تو عیادت کے لیے جاتے ہوئے فرمایا کہ مجھے بنی واقف کے بینا کی عیادت کے لیے لے چلو۔ (٥) یہودی شاعر کا قتل : قبیلۂ بنی عمرو بن عوف میں ابوعفک ایک شاعر تھا۔ اس کی عمر ١٢٠ سال تھی، ہر وقت رسول اللہ ۖ کی شان میں گستاخی اور ہجو کرتا تھا۔ اپنی قوم کے جذبات کو مسلمانوں کے خلاف اُبھارتا تھا۔ بدر کی فتح سے بھی کوئی سبق نہ لیا بلکہ اِس کی گستاخی کچھ اور ہی بڑھ گئی۔ حضور ۖ نے فرمایا کون ہے جو میری عزت و حرمت کے لیے اِس کی زبان بند کردے؟ حضرت سالم بن عمیر رضی اللہ عنہ تلوار لے کر اُٹھ کھڑے ہوئے۔ رات آئی تو اپنے کام پر روانہ ہوئے۔ ابوعفک اپنے گھر کے صحن میں غفلت کی نیند سورہا تھا، تلوار اُس کے سینے کے پارکردی اور اُس کا کام تمام کردیا۔ (یہاں تک تمام واقعات بعد ترمیم سیرتِ احمد مجتبیٰ ۖسے ماخود ہیں) فائدہ : حضور ۖ کی شان میں گستاخی کرنے کا دُنیا میں یہ انجام ہوا کہ عصماء اور ابوعفک دونوں قتل ہوئے اور اُن کی دُنیا و آخرت دونوں برباد ہوئیں، گستاخی کرنے والے عبرت لیں۔ (جاری ہے)