ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2006 |
اكستان |
|
دِبَارًا وَالدِّبَارُ اَنْ یَّأْتِیَھَا بَعْدَ اَنْ تَفُوْتَہ۔ وَرَجُل نِ اعْتَبَدَ مُحَرَّرَةً۔ (ابوداود ج١ ص ٨٨ ۔ ابن ماجہ ص ٦٩ ۔ مشکوة ص ١٠٠) حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اکرم ۖ فرماتے ہیں تین شخص ایسے ہیں جن کی نماز اللہ تعالیٰ قبول نہیں فرماتے۔ ایک وہ شخص جو لوگوں کو نماز پڑھانے کے لیے آگے بڑھے جبکہ لوگ اسے ناپسند کرتے ہوں، دوسرا وہ شخص جو نماز میں پیچھے آئے اور پیچھے آنے کا مطلب یہ ہے کہ نماز کا (مستحب) وقت نکل جانے کے بعد آئے، تیسرا وہ شخص جو کسی آزاد آدمی کو غلام بنالے۔ تین شخص جن کی نماز اُن کے سروں سے بالشت بھر بھی بلند نہیں ہوتی : عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ رَّسُوْلِ اللّٰہِ ۖ قَالَ ثَلٰثَة لَّا تَرْتَفِعُ صَلٰوتُھُمْ فَوْقَ رُؤُوْسِھِمْ شِبْرًا رَجُل اَمَّ قَوْمًا وَّھُمْ لَہ کَارِھُوْنَ وَامْرَأَة بَاتَتْ وَزَوْجُھَا عَلَیْھَا سَاخِط وَّاَخَوَانِ مُتَصَارِمَانِ۔(ابن ماجہ ص ٦٩،مشکٰوة ص ١٠٠) حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما رسول اکرم ۖ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: تین شخص ایسے ہیں جن کی نماز اُن کے سروں سے بالشت بھر بھی بلند نہیں ہوتی۔ ایک تو وہ شخص جو کسی جماعت کی امامت کروائے جبکہ مقتدی اس سے ناخوش ہوں، دوسرے وہ عورت جو اس حالت میں رات گزارے کہ اُس کا شوہر اس سے ناراض ہو، تیسرے وہ دو بھائی جو آپس میں ناراض ہوں۔ ف : مذکورہ چاروں احادیث میں سات افراد کا تذکرہ کرکے اُن پر مختلف عنوانات سے وعید ذکر کی گئی ہے۔ (١) ایسا امام جس سے اس کے مقتدی ناخوش ہوں اور اُسے ناپسند کرتے ہوں۔ اس سے مراد وہ امام ہے جس کی ناپسندیدگی کی وجہ کوئی دینی و شرعی خرابی ہو مثلاً یہ کہ وہ بدعات میں مبتلا ہو یا فسق و فجور کے کاموں کا شکار ہو، یا مسائلِ نماز سے جاہل، اگر ناپسندیدگی کی محض کوئی دنیوی وجہ ہے تو اس صورت میں امام کے لیے وہ وعیدیں نہیں ہوں گی جو احادیث میں ذکر کی گئی ہیں۔ پھر ناپسندیدگی بھی اکثریت کی معتبر ہوگی، کسی ایک آدھ فرد کی نہیں۔ (٢) ایسی عورت جو اِس حالت میں رات گزارے کہ اُس کا شوہر اُس سے ناراض ہو۔ اس سے مراد وہ