ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2006 |
اكستان |
|
٣٠ شعبان سے بعد نماز ِ عصر ہی تلاوت دوبارہ سنی جاتی اور نماز ِ عشاء تاخیر سے ادا کیے جانے کا اعلان کردیا جاتا تھا۔ نماز ِ مغرب و عشاء میں وقفہ تقریباً دو گھنٹے کا ہوتا تھا اِس وقفے کے دوران شام کا کھانا اور کچھ آرام بھی شامل ہوتا تھا۔ نماز ِ عشاء کی ادائیگی کے متصل بعد تراویح کا آغاز ہوجاتا تھا۔ دوران ِ تراویح ہر چار رکعات کے بعد جتنی دیر میں یہ چار رکعت ادا ہوتیں اُتنا ہی اِس میں وقفہ ہوتا تھا۔ وقفہ میں سہولت کے ساتھ ہر شخص تلاوت، اَذکار و آرام کے لیے آزاد تھا۔ ٢٠ تراویح تین گھنٹہ میں پایۂ تکمیل کو پہنچتی۔ نوٹ : تراویح کے بعد ہی نہایت الحاح و زاری سے اجتماعی دُعا ہوتی تھی۔ وتر کی ادائیگی کے بعد انفرادی دُعا ہوتی تھی۔ وتر کی ادائیگی کے بعد حضرت ِ اقدس امیر الہند رحمة اللہ علیہ اپنی مختصر دُعا کے بعد لوگوں کی طرف متوجہ ہوتے تھے۔ تمام ذاکرین و سالکین و شرکاء حلقہ بناکر بیٹھ جاتے۔ اُس وقت آپ کی موجودگی میں حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کی معروف تصنیف ''اکابر کا رمضان'' کا کچھ حصہ پڑھا جاتا تھا جس کو عام طور پر آپ کے نہایت بااعتماد رفیقِ خاص حضرت شیخ الاسلام کے خلیفہ حضرت مولانا سید محمود صاحب پڑھتے تھے۔ اس تعلیم میں تقریباً بیس منٹ صرف ہوتے تھے۔ اِس کے بعد حضرت ِ اقدس رحمة اللہ علیہ ذاکرین سے فرماتے کہ سب اپنے اپنے اذکار میں مصروف ہوجائیں۔ تمام سالکین آپ کی نگرانی میں ذکر شروع کردیتے تھے اِس دوران روشنی مکمل طور پر بند کردی جاتی تھی۔ یہ مجلس ِذکر تقریباً ڈیرھ گھنٹہ جاری رہتی۔ اس مجلسِ ذکر سے کچھ دیر بعد آپ حلقۂ ذکر سے اُٹھ جاتے۔ باہر سے آنے والے وفود جنہوں نے حضرت امیرالہند سے پہلے سے وقت لیا ہوتا تھا وہ حاضر ہوکر اپنے مسائل پر تبادلہ خیال کرتے تھے۔ یہ وقت ملاقات کم و بیش ایک گھنٹہ ہوتا تھا، اُدھر مجلس ذکر کے اختتام کے بعد ایک گھنٹہ کے لیے وقفہ ہوتا جس میں ذاکرین تازہ طہارت سے فراغت کے بعد چائے وغیرہ نوش کرتے تھے۔ اِس کے بعد نماز تہجد میں مقررہ حافظ باری باری اپنے سامع کے ساتھ تہجد باجماعت شروع کردیتے ۔شرکاء اپنی مرضی و اختیار کے ساتھ اِس جماعت میں شامل ہوتے تھے۔ نوٹ : یہ بات ملحوظ رہے کہ نماز تہجد کی جماعت میں شمولیت کے لیے کسی کو بھی دعوت نہیں دی جاتی حتی کہ آرام میں مصروف حضرات کو بھی بیدار نہیں کیا جاتا تھا۔ یہ تہجد کا معمول بھی تقریباً تین گھنٹے جاری رہتا تھا جس میں عام طور پر چار سے پانچ پارے تلاوت ہوتے تھے۔ نماز تہجد کے اختتام پر تقریباً آٹھ دس منٹ تک دُعا ہوتی تھی جس میں گریہ و زاری کا دِلدوز منظر ہوتا تھا۔اس