ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2006 |
اكستان |
|
اَوچھاپڑا۔ ابورافع نے شور مچایا۔ کچھ وقت گزرا تو آواز بدل کر پوچھا یہ شور کیسا ہے؟ ابورافع نے جواب دیا کوئی میرے کمرے میں گھس آیا ہے اور مجھ پر وَار کیا گیا ہے۔ حضرت عبد اللہ قریب پہنچے اور تلوار اُس کے پیٹ میں گھونپ دی جو آرپار ہوگئی۔ وہ کہتے ہیں کہ میں دروازہ کھولتا ہوا آخری زینے تک پہنچا سمجھا کہ زمین آگئی ہے آگے بڑھا تو بلندی سے نیچے گرپڑا اور پنڈلی کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ عمامہ نکال کر اِسے باندھ لیا اور ساتھیوں کے پاس فصیل کے باہر پہنچ گیا۔ اِن سے کہا تم جائو اور رسول اللہ ۖ کو خوشخبری سنائو، میں صبح اس کی موت کی تصدیق کے بعد آئوں گا۔ مرغ نے بوقت فجر اذان دی تو منادی نے قلعہ سے اعلان کیا کہ کسی نے ابورافع کو قتل کردیا ہے۔ یہ سن کر میں خوش خوش مدینہ منورہ آیا ،حضور ۖ کی خدمت میں حاضر ہوا، حضور ۖ نے اپنے دست ِ مبارک سے پنڈلی کی ٹوٹی ہڈی پر لعاب دہن لگایا جو اچھی ہوگئی۔ فائدہ : ابورافع گستاخ رسول ہی نہیں تھا بلکہ قریش کو مسلمانوں کے خلاف جنگ پر اُبھارا بھی کرتا تھا۔ اُن کی ہر طرح مدد کرتا تھا۔ لہٰذا مسلمانوں کی سلامتی کے لیے ایسے مجرم کا خاتمہ بہت ضروری تھا۔ بہرحال ابورافع حضور اکرم ۖ کی شان میں گستاخی کی سزا پاکر ہمیشہ کے لیے جہنم میں گیا۔ (٤) یہودیہ عَصْمَاء شاعرہ کا انجام : بنی خطمہ میں ایک یہودیہ عصماء نامی عورت شاعرہ تھی۔ اُس نے اپنی شاعری کا رُخ مسلمانوں کی ہجو کی طرف موڑدیا تھا خصوصاً رسول اللہ ۖ کی شان میں بڑے گستاخانہ اشعار کہتی تھی اور لوگوں کو مسلمانوں کے خلاف لڑائی پر اُبھارتی تھی اپنے ایَّامِ ماہواری کے گندے کپڑے مسجد میں ڈالا کرتی۔ حضور ۖ ابھی غزوہ بدر سے واپس نہ ہوئے تھے کہ اُس نے اپنے اشعار میں حضور ۖ کی شان میں ہجو اور گستاخی شروع کردی۔ ایک نابینا صحابی عمیر بن عدی رضی اللہ عنہ نے سنا تو د ل میں عہد کرلیا کہ اگر حضور ۖ غزوۂ بدر سے بسلامت واپس تشریف لائے تو میں اِس شاعرہ کی زبان بند کروں گا۔ الحمد للہ حضور ۖ بدر سے فاتحانہ تشریف لائے تو حضرت عمیر رضی اللہ عنہ اپنی منت پوری کرنے کے لیے تلوار لے کر نکلے۔ رات کے وقت اُس کے گھر میں داخل ہوئے ،راستہ ٹٹولتے ٹٹولتے اُس کے قریب پہنچے، بچہ اُس کی چھاتی سے لگا ہوا تھا اُسے ایک طرف کیا اور تلوار دل میں چبھودی وہ آواز تک نہ نکال سکی اور مرگئی۔