ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2006 |
اكستان |
|
نوٹ : زنان خانہ میں بھی مستورات کے لیے تراویح کا اہتمام ہوتا تھا جس کی امامت مرد حفاظ قرآن کرواتے تھے اور وہ پردے میں پڑھتے تھے۔ عام طور پر آپ کے خاندان کا ہی کوئی حافظ یہ فریضہ انجام دیتا۔ یہ معمولات ماہِ صیام کی ہر شب میں جاری رہتے تھے۔ تمام شرکاء ماہِ رمضان کی ہر شب کو خانقاہِ مدنیہ میں لیلة القدر کی طرح گزارتے تھے۔ اکثر ذاکرین و سالکین سے ہر دن گزارنے کے بعد یہ دُعائیہ جملے سننے میں آتا رہتا کہ اے اللہ یہ پورا ماہِ رمضان نصیب فرمادے۔ معلوم نہیں کہ آئندہ نصیب ہوگا یا نہیں اور ایک دوسرے کو تلقین کرتے ہوئے نظر آتے کہ جو وقت ملا ہے اِس کی قدر کرو۔ حضرتِ اقدس امیر الہند رحمة اللہ علیہ بھی ماہِ رمضان کے جمعوں میں بیان فرماتے ہوئے خصوصیت سے یہ اِرشاد نبوی ۖ دہراتے تھے کہ ''جس شخص نے تندرسی میں ماہِ رمضان کو پایا اور خوب عبادت کرکے راتوں کو زندہ نہ کیا اور اپنی بخشش نہ کرواسکا ، وہ بڑا ہی بدنصیب ہے۔'' حالت ِ اعتکاف : یہاں خانقاہ میں ماہِ رمضان کی ہر رات لیلة القدر کا سماں پیش کرتی تھی اس لیے حالت ِاعتکاف کے معمولات کا خاص فرق نہیں ہوتا البتہ معتکفین پر ماہِ رمضان کی جلد جدائی کا صدمہ نمایاں نظر آتا تھا۔ اختتام ماہِ رمضان چاند نظر آنے پر چاند رات کو بھی اسی فکر کے ساتھ گزارا جاتا تھا اِس رات میں گریہ و زاری اپنے عروج پر ہوتی تھی۔ نمازِ فجر کے بعد مہمان نمازِ عید الفطر کی تیاری میں مصروف ہوتے۔ عیدگاہ جانے سے قبل تمام مہمانوں کو مختصر سا ناشتہ دیا جاتا تھا جس میں عام طور پر مدینہ منورہ کی کھجور، دودھ میں بنائی ہوئیں سویاں، پستہ و بادام سے مرصّع ہوتی تھیں، چائے بھی دی جاتی تھی۔ عید الفطر کا دن دیوبند میں مسلمانوں کی اعلیٰ عظمت کا نقیب ہوتا تھا۔ ہزاروں لوگوں کی آرزو اور تمنا کا لحاظ رکھتے ہوئے مشائخ، علماء اور آئمہ کے اصرار پر حضرتِ اقدس امیر الہند رحمة اللہ علیہ نمازِ عید الفطر کی امامت عیدگاہ میں فرماتے تھے۔ اس عظیم اجتماع کو دیکھ کر حرمین شریفین کے حج کی یاد تازہ ہوجاتی۔