ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2006 |
اكستان |
|
مقدمہ (ذریعہ) ضرور ہے۔ اس کا منشاء (وسبب) وہی دُنیا کی محبت ہے جو سب عورتوں پرعموماً غالب ہے۔ اس لیے عورتیں بہت کم دیندار ہوتی ہیں اور جن بعض مقامات کی عورتوں میں دینداری ہے وہ صرف اِسی وجہ سے ہے کہ اُن میں دُنیا کی محبت کم ہے۔ (ہم الاخرة) حرص : عورتوں میں چونکہ ناشکری کا مادہ زیادہ ہے اس لیے اِن کو تھوڑے سامان پر قناعت نہیں ہوتی۔ چنانچہ دیکھا جاتا ہے کہ بعض عورتوں کے پاس سال بھر کے کپڑے موجود ہوتے ہیں جو صندوق میں بھرے رکھے ہیں، لیکن پھر بھی کیا مجال ہے کہ پھیری والا بزاز (کپڑے بیچنے والا) اِن کے گھر کے سامنے سے خالی گزرجائے۔ جہاں بزاز (پھیری والے) کی آواز سنیں گی فوراً اُس کو دروازہ پر بٹھلاکر اور کپڑا پھڑوالیں گی۔ برتن گھر میں ضرورت سے زیادہ ہوں گے مگر پھر بھی اِن کی فرمائشوں کا سلسلہ ختم نہ ہوگا۔ غرض اِن کو دُنیا کی تکمیل کا بہت زیادہ فکر ہے۔ ہر وقت اِسی دُھن میں رہتی ہیں، اِن کی ہوس کبھی پوری نہیں ہوتی۔ زیور کی ہوس کا یہ حال ہے کہ بعض عورتیں سر سے پیر تک لدی پھندی رہتی ہیں مگر پھر بھی بس نہیں اگر نیا زیور نہ بنوائیں گی تو پہلے زیور کی توڑ پھوڑ میں روپیہ برباد کرتی رہیں گی۔ آج تو زیور بڑے شوق سے بنوایا تھا، کل کو کسی عورت کے پاس وہی زیوردوسرے نمونہ کا دیکھ لیا تو اب اِن کو توڑ پھوڑ کی بے کلی لگتی ہے کہ میں بھی اِسی نمونہ کا بنوائوں گی۔ (الکمال فی الدین) تھوڑے پر قناعت نہ کرنا : عورتوں میں قناعت کا مادہ ہے ہی نہیں۔ اِن کی طبیعت میں بکھیڑا بہت ہے، اِن سے تھوڑے سامان میں گزر ہوتی ہی نہیں جب تک کہ سارا گھر سامان سے بھرا بھرا نظر نہ آئے۔ مردوں کے نزدیک تو ضرورت کا درجہ یہ ہے کہ جس کے بغیر تکلیف ہو سو اُتنا سامان تو اکثر متوسط الحال (درمیان قسم کے) لوگوں کے گھروں میں بحمد اللہ موجود ہوتا ہی ہے، اِس لیے مردوں کو اِس سے زیادہ کی ضرورت نہیں معلوم ہوتی۔ ہاں اگر خدا وسعت دے تو اِس کا بھی مضائقہ نہیں اتنا سامان جمع کرلیا جائے جس سے زیادہ راحت نصیب ہو، یہ درجہ مردوں کے نزدیک کمال کا مرتبہ ہے۔ مگر عورتوں کے نزدیک ضرورت کا درجہ کوئی چیز نہیں۔ مرد جس کو ضرورت کا درجہ سمجھتے ہیں وہ عورتوں کے نزدیک قلت اور تنگی کا درجہ ہے۔ اِن کے نزدیک ضرورت