ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2006 |
اكستان |
معترض کا اعتراض : ایک جگہ پہنچا ہے تو وہاں ایک آدمی کھڑا ہوگیا اور اُس نے کہا کہ اَمَّا اِذَا نَشَدْ تَّنَا جب تم ہمیں قسم دے ہی رہے ہو کہ اگر کسی کو کوئی شکایت معلوم ہو تو صحیح صحیح بتائے۔ تو پھر ہمیں یہ شکایت ہے اِن سے اِنَّ سَعْدًا کَانَ لَایَسِیْرُ بِالسَّرِیَّةِ ایک تو یہ کہ یہ لشکر پر نہیں جاتے اور لَایَقْسِمُ بِالسَّوِیَّةِ جو یہ بیت المال کی تقسیم ہے یہ صحیح نہیں کرتے اور لَایَعْدِلُ فِی الْقَضِیَّةِ فیصلہ جو ہے اِن کا وہ صحیح نہیں ہوتا، اُس میں عدل و انصاف نہیں ہے۔ یہ تین اعتراض اُس آدمی نے کئے۔ معلوم یہ ہوا کہ جڑ یہی تھی فساد کی۔اِسی نے یہ باتیں اُٹھائی تھیں اور نماز (ٹھیک سے نہ پڑھانا) کے بارے میں اُس نے بات ہی نہیں کی، بس یہ تین باتیں کیں۔ حضرت سعد کی بددُعا : تو حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک بات کہی۔ اِنہوں نے کہا دیکھو میں بس دُعا کرسکتا ہوں اَللّٰھُمَّ اِنْ کَانَ عَبْدُکَ ہٰذَا کَاذِبًا قَامَ رِیَآئً وَّسُمْعَةً خداوند ِکریم اگر یہ بندہ تیرا جھوٹا ہے اور کھڑا اِس لیے ہوا ہے کہ لوگ اِسے دیکھ لیں سُمْعَةً شہرت کے لیے۔ ایک آدمی جو گورنر پر اعتراض کررہا ہو تو اُسے شہرت بھی تو حاصل ہوتی ہے کہ فلاں آدمی ہے، تو گویا بمقابل گورنر ہوگیا(اپوزیشن لیڈر قائد حزب اختلاف) ۔تو انہوں نے فرمایا اللہ تعالیٰ اگر یہ جھوٹا ہے اور اِس کے کھڑے ہونے کی وجہ اعتراض کی وجہ سچی نہیں ہے جھوٹ ہے تو تین بددُعائیں انہوں نے دیں اَطِلْ عُمْرَہ وَاَطِلْ فَقْرَہ وَعَرِّضْہُ بِالْفِتَنِ اِس کی عمر بھی لمبی ہو، اِس کا فقر دراز کردے اور فقر بڑی بُری چیز ہے کَادَ الْفَقْرُ اَنْ یَّکُوْنَ کُفْرًا حدیث میں آیا ہے فقر جو ہے وہ ایسی چیز ہے کہ اُس میں انسان ایمان سے بھی نکل جاتا ہے۔ بعض دفعہ ضرورت میں آکر ضرورت پوری کرنے کے لیے ناجائز طریقہ پر اُتر آتا ہے۔ تو دو باتیں انہوں نے کہیں لمبی عمر ہوجائے، فقر اِس کا دراز ہوجائے تیسری بات یہ فرمائی وَعَرِّضْہُ بِالْفِتَنِ اور یہ فتنوں میں مبتلا رہے، آزمائشوں میں پڑا رہے۔ بد دُعا کا اثر : پھر اِسی طرح ہوا ہے، لمبی عمر ہوگئی لوگوں نے ایک عرصہ تک اُس کے جھوٹ کا تماشہ دیکھا، لمبی عمر فقر دراز ذرائع اُس کے مسدود ہوگئے اور اُس کی عادتیں خراب ہوگئیں۔ خواہ مخواہ جو جاریہ ہوتی تھیں اُس زمانے میں