ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2006 |
اكستان |
|
کے دور میں ہی جاری بھی ہوگیا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اِن لوگوں کی بات پر دونوں کے بارے میں یہی فرمایا، دو کے بارے میں نام لے کر ،یہ دو حضرات ایسے ہیں کہ اگر اِن کا ہٹنا رُکنا گناہ ہے تو تھوڑا گناہ ہے.......... حضرت سعد نے حضرت معاویہ کی سیاسی خواہش پوری نہیں کی : ایسا ثبوت ملتا ہے کہ حضرت معاویہ حضرت حسن سے صلح ہونیکے بعد جب اِن کی حکومت سب جگہوں پر ہوگئی تھی تو وہ مدینہ منورہ آئے اِدھر حضرت سعد بھی مدینہ منورہ آچکے تھے تو حضرت معاویہ نے حضرت علی کا ذکر کیا، اور اِن( حضرت سعد) سے چاہا کہ اِن کے حق میں کوئی کلمات ایسے استعمال فرمائیں جو سیاسی طور پر حضرت معاویہ کے لیے مفید ہوجائیںا ور اُن (حضرت علی) کے بارے میں یہ ہوجائے کہ وزن کم ہو اُن کا لوگوں کے ذہنوں سے۔ تو انہوں نے بالکل انکار کردیا کہ یہ غلط ہے وہ (حضرت علی) بہت بڑے تھے وغیرہ وغیرہ۔ اِن کے لیے تعریفی کلمات کہے تو یہ نہیں تھا کہ یہ اِن سے ہٹے ہوں اور اِس طرح ہٹے ہوں کہ مخالف ہوگئے ہوں، رہے موافق ہی۔ بیعت ِخلافت کا مطلب : بیعت کا عجیب معاملہ تھا۔ بیعت کا مطلب یہ سمجھا ہے صحابہ کرام نے اُس دور میں کہ اگر دو حضرات میں اختلاف ہورہا ہو حکومت پر تو جب تک حکومت جم نہ جائے پکی طرح سے اُس وقت تک بیعت فرض نہیں ہوتی، ضروری نہیں ہوتی۔ اگر کوئی آدمی بیعت میں توقف کرتا ہے، دیر لگاتا ہے تو کوئی حرج نہیں۔ تو اِس لیے حضرت علی نے بھی اِس درجہ میں رکھا کہ اگر وہ بیعت نہیں ہیں مگر مخالف بھی نہیں ہیں تو کوئی حرج نہیں۔ حضرت سعد کی زمینیںیہاں کوفہ میں ہوگئیں تھیں توکوفہ میں رہتے تھے مگر مدینہ منورہ میں جاکر رہنے کا ثبوت ملتا ہے۔ اِس لیے حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ دیکھو سعد بن ابی وقاص جیسے لوگ کوفہ میں رہتے ہیں تو یہ اِن حضرات کا ذکر خیر تھا اور کوفہ کی منقبت بھی اِس میں ہے، فضیلت بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو آخرت میں اِن کا ساتھ نصیب فرمائے۔ آمین۔اختتامی دُعا ............................