ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2006 |
اكستان |
|
باندیاں ہوتی تھیں۔ تو عورتیں جو گھر کا سودا منگانا ہو باندیوں سے منگاتی تھیں۔ گھر میں کام باندیاں کرتی تھیں تو وہ باندیاں جب باہر بازار میں جاتی تھیں خرید و فروخت کرنے کے لیے تو یہ اُن کو چھیڑتا تھا ۔ اور وہ کہتے ہیں قَدْ سَقَطَ حَاجِبَاہُ عَلٰی عَیْنَیْہِ مِنَ الْکِبَرِ بڑھاپے کی وجہ سے اُس کے آنکھوں کے اُوپر جو بھنویں ہیں اَبرو ہیں، یہ اُس کی آنکھوں کے اُوپر لٹک گئے تھے۔ بہت بوڑھا ہوچکا تھا اور وہ لڑکیوں کو چھیڑتا تھا اور لڑکیاں اُسے برا بھلا کہتی تھیں۔ لوگ اُسے آکر ملامت کرتے تھے، سمجھاتے تھے کہ کرتا کیا ہے آخر تو یہ، یہ حرکت کیا کرتا ہے؟ تو وہ جواب میں کہتا تھا شَیْخ مَّفْتُوْن اَصَابَتْہُ دَعْوَةُ سَعْدٍ بس ایک بوڑھا آدمی ہے اور فتنے میں پڑچکا ہے اور اُسے بددُعا لگ چکی ہے سعد کی۔ تو حضرت سعد مُجَابُ الدَّعْوَةِ مشہور تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پھر اِن کو بلالیا اپنے پاس اور اپنے ہی پاس مدینہ شریف میں ہی رکھا۔ حضرت عمر کی شہادت کے وقت اِن کے حق میں اہم وصیت : اور اپنی شہادت کے وقت یہ وصیّت اور ہدایت فرمائی کہ یہ جو عشرہ مبشرہ میں سے بچے ہوئے آدمی ہیں اِن ہی میں سے کسی کو کثرتِ رائے سے مقرر کردینا اور اگر اتفاق ِرائے سعد پر ہوجائے تو ٹھیک ہے کیونکہ میں نے اُن کو جو کوفہ سے ہٹایا معزول کیا تھا، تو اسلئے نہیں ہٹایا تھا کہ وہ وہاں کا انتظام نہیں سنبھال سکتے تھے یا انہوں نے کوئی خیانت کی تھی ،ایسی وجہ کوئی نہیں تھی۔ انہوں نے ان کی مزید صفائی کی لَمْ اَعْزِلْہُ عَنْ عَجْزٍ وَّلَاخِیَانَةٍ ہاں یہ تھا کہ رسول اللہ ۖ کے جلیل القدر صحابی ہیں۔ لوگوں نے ایسی باتیں بنائی جو اِن کی شان کے مناسب نہیں تھیں، اس لیے اُس جگہ سے میں نے اِن کو ہٹادیا تھا، بچالیا تھا۔ یہ نہیں کہ یہ انتظام نہیں کرسکتے تھے ،بلکہ کر سکتے تھے۔ کوئی خیانت کی ہو؟ کوئی خیانت نہیں کی ،تو اِس طرح کی اگر کسی نے بات کی بھی ہو یا سنی بھی ہو تو وہ غلط ہے۔ اپنی وفات کے وقت جب وہ زخمی تھے تو اُنہوں نے جو ہدایات دی ہیں یا وصیتیں کی ہیں اُن میں یہ وصیت بھی تھی۔ تو حضرت سعد رضی اللہ عنہ بعد میں بہت عرصہ تک حیات رہے ہیں۔ حضرت سعد نے حضرت علی کے ہاتھ پر بیعت کرنے میں تاخیر کی مگر محاذ آرا ئی نہیں کی : ہاں یہ بات ضرورکی ہے کہ یہ اور حضرت عبد اللہ ابن عمر یہ دو حضرات ایسے تھے کہ انہوں نے حضرت علی سے بیعت ہونے میں تاخیر کی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اِن پر کوئی سختی نہیں کی کہ انہیں مجبور کریں جیل میں ڈال دیں۔ ایسا نہیں کیا بس وظیفہ اِن کا بیت المال سے (کچھ عرصہ کے لیے) رُکا بھی ہے، پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ