ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2006 |
اكستان |
|
گئے۔ پھر بلالیا ۔کہنے لگے میں نے بلایا تھا، کہاں چلے گئے تھے؟مطلب یہ تھاکہ ٹھہرتے۔ اُنہوں نے کہا کہ میں آیا میں نے سلام کیا تین دفعہ، جواب نہیں آیا تو میں چلاگیا۔ کہا یہ کیا کیا تم نے۔ انہوں نے کہا ہمیں تو ایسے ہی یاد ہے، رسول اللہ ۖ کی تعلیم اِسی طرح تھی کہ تین دفعہ اجازت لو، اگر نہ دے کوئی گھر والا اجازت تو واپس چلے جائو، سمجھ لو کہ وہ کسی ایسے کام میں مصروف ہے کہ وہ نہیں آسکتا۔ اور ٹیلی فون کا بھی یہی ہونا چاہیے، گھنٹی کا بھی یہی ہونا چاہیے۔نہیں اُٹھاسکتا کوئی ، ہاں اگر کوئی کہہ دے کہ دیر تک بجانا گھنٹی مجھے آنے میں دیر لگتی ہے تو الگ بات ہے، ورنہ قاعدہ ایسا ہی ہونا چاہیے۔ تو اِس میں یہ ہے کہ کوئی آدمی سو بھی رہا ہے اگر تو یہ نہیں ہوگا کہ وہ اُٹھ کر بیٹھ جائے، پریشان ہو بہت زیادہ ۔ہاں کوئی اہم بات ہو تو الگ بات ہے ورنہ قاعدہ یہی ہے۔ اور برا بھی نہیں ماننا چاہیے یہ بھی آگیا ہے حدیث شریف میں، قرآن پاک میں۔ اگر کوئی نہ مل سکے تو پھر تم واپس چلے جائو یہی آتا ہے۔ تو حضرت ابوموسٰی نے جب یہ بات کہی تو حضرت عمر کہنے لگے لائو گواہ اور بھی جس نے یہ تعلیم سنی ہو تو یہ گواہ لائے، بغیر دوسرے آدمی کے انہوں نے ہر صحابی کی حدیثوں پر اطمینان بھی نہیں کیا لیکن حضرت سعد پر بڑا اطمینان تھا۔ حضرت سعد پر اعتماد کی ایک اور مثال : حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بیٹے عبد اللہ ہیں جو بہت اتباع سنت کرتے ہیں، صحابی ہیں خود بھی۔ غزوۂ خندق جو تھا، غزوہ خندق میں وہ شامل ہوئے ہیں اُس سے پہلے جو غزوات تھے اُن میں وہ چھوٹے تھے، نہیں شامل ہوسکے۔ تو حضرت ابن عمر نے انہیں دیکھا کہ یہ موزوں پر مسح کررہے ہیں خفین پر، تو اِن سے پوچھا انہوں نے کہا ٹھیک ہے یہ سنت ہے۔ انہیں اطمینان نہیں ہوا تو پھر انہوں نے کہا کہ اپنے والد سے پوچھ لینا ملوگے تو۔ انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے جب ملنا ہوا تو یہ بات پوچھی تو انھوں نے اِنہیں فرمایا کہ جب سعد نبی علیہ السلام سے کوئی بات بیان کریں کہ یہ بات رسول اللہ ۖ نے کی ہے یا فرمائی ہے تو پھر کسی اور سے پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے مت پوچھو کسی اور سے اِذَا حَدَّثَکَ شَیْئًا سَعْد عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فلَا تَسْئَلْ عَنْہُ غَیْرَہ تو بہت زیادہ اطمینان تھا اِن پر۔ تفتیشی افسر کی کوفہ روانگی : پھر اِن کے ساتھ آدمی بھیج دیئے مزید تفتیش کے لیے بالکل ضابطہ کی بات جو تھی وہ پوری ہی کی ہے انہوں نے۔ تفتیش کے لیے آدمی بھیجا وہ گیا، وہ ہرجگہ پوچھتا رہا، کسی جگہ کسی نے کوئی شکایت نہیں کی۔