ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2006 |
اكستان |
|
مبشرہ کہا جاتا ہے اُن میں اِن کا اسم گرامی ہے۔ سعد ہیں، سعید ابن زید ہیں یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بہنوئی بھی ہیں، حضرت ابوعبیدہ ابن الجراح ہیں، حضرت عبد الرحمن ابن عوف ہیں، حضرت طلحہ ہیں، حضرت زبیر ہیں اور چاروں خلفاء ہیں(رضی اللہ عنہم) ۔ یہ دس ''مُبَشَّرَة بِالْجَنَّةِ'' عشرہ مبشرہ کہلاتے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب فتوحات ہوگئیں تو کو فہ بسایا اور کوفہ کا اِن کو حاکم (گورنر)مقرر کردیا ۔ نماز گورنر پڑھاتے تھے اور اُس کا فائدہ : اور قاعدہ یہی تھا کہ جو حاکم ہو نماز وہ پڑھاتا ہے۔ تو اب بھی یہی قاعدہ ہے ہونا بھی یہی چاہیے کہ جوگورنر یا حکام ہیں وہ نماز پڑھائیں ١ شاہی مسجد (لاہور) میں نماز پانچوں وقت کی بھی پڑھائے، جمعہ کی بھی پڑھائے، لوگوں کو ملنا جلنا آسان ہوجاتا ہے، انصاف خود بخود ہوتا رہتا ہے (ماتحت افسروں کو ڈر رہتا ہے) کہ کوئی شکایت نہ پہنچنے پائے گورنر کو۔ اِسلام میں لوگوں سے (حکام کے) اِختلاط پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے۔ حضرت سعد کی طلبی اور حضرت عمر سے گفتگو : اب شرارتی لوگوں نے حضرت سعد کے خلاف کچھ شکایتیں کیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بلالیا اُن کو اور اِن سے پوچھا آپ کے خلاف یہ شکایت مجھے ملی ہے کہ صحیح طرح نماز نہیں پڑھاتے۔ اِنہوں نے کہا یہ بات تو نہیں ہے اِنِّیْ لَاُصَلِّیْ بِھِمْ صَلٰوةَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جو جناب رسول اللہ ۖ کا طریقہ تھا اُس طریقہ پر پڑھاتا ہوں نماز ۔ اِنِّیْ لَاُرْکِدُ بِھِمْ فِیْ الْاُوْلَیَیْنِ وَاُحْذِفُ فِی الْاُخْرَیَیْنِ ١ دو جو پہلی ہیں وہ میں ٹھہرکر پڑھتا ہوں جو اگلی ہوتی ہیں دو اُنہیں میں بہت مختصر پڑھتا ہوں۔ تو اُنہوں نے کہا ٹھیک ہے ذَاکَ الظَّنُّ بِکَ یَا اَبَااِسْحَاقَ میرا گمان تمہارے ساتھ یہی ہے۔ حضرت عمر اورمعاملہ کی تحقیق، مثال سے وضاحت : اور گمان حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ہر ایک کے ساتھ ایسا نہیں ہوتا تھا۔ آپ کو پہلے پتاچلا ہوگا یا شاید سنا ہو۔ ایک دفعہ دریافت کیا کہ ابوموسٰی اشعری کہاں ہیں؟ بلایا گیا اُنہیں،وہ آئے اور پھر چلے گئے۔ حضرت عمر کا ذہن جب اپنے کام سے فارغ ہو ا تو پوچھا کہ مجھے آواز آئی تھی اُن کی، کہاں ہیں وہ؟ اُنہوں نے کہا وہ آئے تھے اور چلے ١ بشرطیکہ باعمل ہو، بد عمل ڈاڑھی مونڈوں کے لئے امامت کرانا جائز نہیں۔ مولانا فضل الرحمن صاحب نے کسی بات پر موجودہ وزیر اعظم شوکت عزیز صاحب سے پوچھا کہ آپ کو نماز آتی ہے تو انہوں نے اِرشاد فرمایا کہ نہیں (اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ) (محمود میاں غفرلہ)