ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2006 |
اكستان |
|
نماز عصر کا وقت ہوجاتا۔ ادائیگی نماز کے بعد فوراً آپ نماز تراویح کے لیے متعین حفاظ کرام کا دَور سماعت فرماتے تھے۔ اِس تلاوت کی سماعت کے لیے اکثر شرکاء اپنی خواہش پر موجود ہوتے۔ یہ دَور وقت ِافطار سے پانچ منٹ قبل ختم ہوجاتا تھا۔ مسجد میں خدام افطار کے لیے دسترخوان بچھاچکے ہوتے تھے۔ حاضرین کو بذریعہ اعلان دسترخوان پر افطار کے لیے پہنچنے کے لیے بلایا جاتا تھا۔ اِس موقع پر بھی فیاضی کا منظر ہوتا تھا۔ کھجور کے ساتھ ساتھ جہاں دسترخوان پر فروٹ چاٹ ہوتی وہاں بھنے ہوئے چنے یا مٹر اور سموسے بھی ہوتے تھے۔اِس افطار کی سب سے اہم خصوصیت یہ تھی کہ ہر روزہ دار کو مدینہ منورہ کی کھجور اور ایک بڑا ڈبہ آبِ زم ز م کا ملتا۔ نوٹ : اِس افطاری میں آٹھ دس منٹ صَرف ہوتے تھے، اس کے بعد نماز مغرب کی ادائیگی کا عمل شروع ہوجاتا تھا۔ نمازِ مغرب کی سنن و نوافل کے بعد فوراً کھانے کے لیے دسترخوان لگادیا جاتا تھا۔ اِس موقع پر بھی فیاضی کا وہی منظر ہوتا جوکہ سحری کے وقت ہوتا تھا۔ البتہ اس کھانے میں سادہ چاولوں کی بجائے بریانی یا گوشت پلائو کا بطورِ خاص اہتمام ہوتا تھا۔ نوٹ : یہ بات بھی پیشِ نظر رہے کہ سحری اور افطاری کے وقت کمزوروں اور بیماروں کے لیے ہر ایک کی طبیعت کے مطابق کھانا فراہم کیا جاتا تھا۔ یہ پرہیزی کھانے حضرتِ اقدس امیر الہند کی اہلیہ محترمہ بذاتِ خود یا اپنی بہوئوں سے اپنی نگرانی میں تیار کرواتی تھیں جس طرح کہ کمزوروں اور بیماروں کے لیے خوراک کا اہتمام ہوتا اِسی طرح خانقاہ کے مہمانوں کے ایمرجنسی علاج کے لیے ایک ماہر طب اور ایک ماہر ڈاکٹر (میڈیکل و ہومیوپیتھک) کا بھی انتظام ہوتا تھا (حضرتِ اقدس رحمة اللہ علیہ کی اہلیہ محترمہاِس دارِ فانی سے ٢٣ ستمبر ٢٠٠٠ء کو رِحلت فرماگئی تھیں)۔ حضرتِ اقدس رحمة اللہ علیہ کی اہلیہ محترمہ کا خاص ذوق یہ بھی تھا کہ تراویح کے بعد اُس وقت تک آرام نہ کرتیں جب تک اپنے بیٹوں سے یہ نہ پوچھ لیتیں کہ خانقاہ میں جائو اور معلوم کرو کسی شخص کو کسی قسم کی ضرورت مثلاً بستر، خوراک وغیرہ ہو تو اُس کو فراہم کی جاتی۔ اس اطمینان کے بعد سوتیں۔ اس کے بعد شرکاء کچھ دیر تقریباً ایک گھنٹہ آرام کرتے اور عشاء کی نماز کی تیاری میں مشغول ہوکر حسبِ سابق معمولات میں مشغول ہوجاتے تھے۔