ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2006 |
اكستان |
|
'' فرمایا رسول مقبول ۖ نے حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ۔ اے اللہ پیارا کرلے اُس کو جو محبت کرے حسین سے ۔حسین ایک جماعت ِفرزندی ہے جماعتوں میں سے (یعنی یہ میرا بیٹا ایک جماعت ہے بیٹوں کی جماعت میں سے)۔'' اور یہاں سے بزرگی حضرت امام حسین شہید کربلا کی کس درجہ ثابت ہوتی ہے کہ اُن کے ساتھ محبت کرنے سے اللہ کا پیارا بن جاتا ہے اور یہ دُعا حضور ۖ کی ہے جس کا قبول ہونا لازم ہے اور آپ نے اُن کو شدت ِمحبت سے بیٹا فرمایا اور آپ اپنے نواسوں کے ساتھ بیٹوں ہی جیسا برتائو فرماتے تھے، اور یہاں سے اولاد کے ساتھ محبت کرنا سنت ثابت ہوا۔ اِس حدیث کو حاکم نے صحیح سند سے روایت کیا ہے۔ حضرت امام حسن و امام حسین رضی اللہ عنہما کا بڑا درجہ ہے۔ یہاں فقط مختصر طور پر کچھ مضمون یہ اَمر بتلانے کو کہ حضرت فاطمہ کی اولاد کی کس قدر فضیلت ہے اور حضور ۖ کو اپنی بیٹی کی پاکیزہ اولاد سے کیا دینی نفع ہوا ،لکھا جاتا ہے۔ حضرت مولانا شاہ عبد العزیز صاحب محدث دہلوی قدس سرہ' نے تحریر فرمایا ہے کہ کمال ِشہادت بذات خود آنحضرت ۖ کو حاصل نہیں ہوا ،اِس واسطے کہ اگر شہادت ظاہری ہوتی تو اِسلام میں بڑا فتور واقع ہوتا (یعنی مخالفین اسلام کو بڑا طعن کرنے کا موقع حاصل ہوتا کہ اشرف الانبیاء ۖ کو شہید کرلیا)۔ نیز خود اہل ِاسلام کو بڑا رنج ہوتا اور گویہ دونوں باتیں بذات ِخود دینی اعتبار سے کچھ بُری نہیں ہیں بلکہ مقصود ہیں کہ اِن کی بدولت رُتبہ میں ترقی ہوتی ہے لیکن حق تعالیٰ کو اِتنا بھی گوارا نہیں ہوا کہ باعتبار دُنیا کے ظاہری طور پر بھی آپ کی نسبت کفار کو ایسی بات کہنے کا موقع ملے نیز مسلمانوں پر رحم کیا کہ اِس عظیم الشان صدمہ سے بچایا اور یہ تمام ہماری سمجھ کا ثمرہ ہے، اصلی حال خدائے تعالیٰ کو معلوم ہے ۔اور جو رُتبہ اللہ کو دینا ہو وہ بہت طریقوں سے حاصل ہوجاتا ہے لیکن عادت ِالٰہیہ اِسی طرح جاری ہے کہ ہر مسبب کا کوئی سبب ہوتا ہے۔ اور اگر شہادت خفیہ ہوتی (خواہ وہ اسبابِ شہادت میں سے کسی طرح ہوتی) تو وہ کامل شہادت نہ ہوتی اِس لیے کہ کمال شہادت یہ ہے کہ آدمی مسافرت میں قتل کیا جاوے اور اُس کے گھوڑے کی کوچیں کاٹی جاویں اور اور مصیبت کی باتیں لکھی ہیں ۔ پھر فرمایا ہے کہ اللہ جل جلالہ' نے ذاتِ حسنین رضی اللہ عنہما کو بجائے ذاتِ جناب رسول اللہ ۖ کے قرار دے کر دونوں طرح کی شہادتوں کا کمال اُن کے ذریعہ سے جناب رسول مقبول ۖ کو عنایت فرمایا اور واضح رہے کہ امام جلال الدین سیوطی وغیرہ رحمہم اللہ تعالیٰ نے تحریر فرمایا ہے کہ حضور ۖ کی وفات بطریق