ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2006 |
اكستان |
نے جان لیا کہ امیر المومنین یزید کی بیعت پر تمام اُمت و ملت متفق ہے جس کے فیصلے و عمل کا استخفاف ممکن نہیں تو آپ اپنے اِرادے سے دستبردار ہوگئے اور پہلے موقف سے رجوع فرماکر فوج کے افسر عمر بن سعد کے ذریعہ گورنر کوفہ کے سامنے تین شرطیں پیش فرمائیں : اول : مجھے واپس جانے دیا جائے۔ دوم : اِسلامی سرحد پر جہاد کے لیے بھیج دیا جائے۔ سوم : یا پھر مجھے دمشق بھیج دیا جائے تاکہ اپنے ابن ِعم (چچازاد بھائی امیر یزید) کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر معاملہ کو اِس طرح طے کرلوں گا جس طرح میرے بھائی حسن نے حضرت امیر معاویہ سے کیا تھا۔ (فَاَضَعُ یَدِیْ فِیْ یَدَیْہِ۔ ( تاریخ طبری ص٢٣٥ ج٦۔ ابن اثیر ص٢٤ ج٤ ۔ تاریخ البدایہ والنہایہ ص١٧٠ ج٨ ۔ الاصابہ لابن حجر ص١٧ ج٢۔ تاریخ الخلفاء السیوطی ص١٤٠۔ رأس الحسین لابن تیمیہ ص٢٠) سوال نمبر ١٣ : سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کے اِس خروج کو بغاوت کا نام دینا مناسب نہیں ہے بلکہ یہ ایک اجتہادی و سیاسی خطا تھی جس کا صدور ہر بڑے سے بڑے شخص سے ہوسکتا ہے اور اِس کا اصل سبب صرف سبائی کوفیوں کی دھوکہ دہی اور اُن کے جھوٹے دَ عاوِی پر اعتماد تھا۔ یہی وجہ ہے کہ سوائے خاندان کے چند نفوس کے کسی صحابی نے اِس خروج میں آپ کا ساتھ نہ دیا۔ حالانکہ اُس وقت ہر شہر میں خاصی تعداد اصحاب کرام کی تھی اور اسی لیے سیدنا حضرت حسین نے حقیقت کھلنے پر امیر یزید مرحوم کی بیعت خلافت کا اعلان فرماکر وابستگی اختیار فرمالی۔ اب یہ کوفی سبائیوں کی سوچی سمجھی اسکیم تھی کہ لڑائی میں پہل کرکے صلح کو پورا نہ ہونے دیا اور اُمت کو سانحہ و مصیبت میں مبتلا کردیا کہ اب قیامت تک شاید ہی اِس سے چھٹکارا مل سکے۔ الحاصل اِن تمام اُمور کو دیکھتے ہوئے امیر یزید پر لعن طعن کرنا یا اِن کی تکفیر و تفسیق کرنا کسی طرح درست نہیں اور نہ ہی انہیں واقعۂ کربلا کا ذمہ دار ٹھہرایا جاسکتا ہے۔ ١ ١ یہ سب لکھنے والے کی اپنی سوچ ہے جو غلط ہے اور بلاحوا لہ۔