ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2006 |
اكستان |
|
بولہب۔(دیکھئے حاشیۂ بخاری ص ١١٠ ج١) لہٰذا اُن کے مسلک پر تو ''اسٹالن ،لینن اور موشے د ایان'' پربھی لعنت بھیجنی درست نہیں ہے۔ (٢) امام غزالی اور ابوبکر بن عربی دونوں کی نظر فقط شہادت حسین رضی اللہ عنہ پر ہے، واقعہ حَرَّہ پر نہیں ہے اور جن لوگوں نے یزید کی تکفیر یا تفسیق کی ہے اُن کی نظر'' واقعہ حَرَّہ '' وغیرہ پر ہے کہ اِسی حالت میں یزید کا انتقال ہوا ہے،بعنوان '' بیعت ابن عمر '' منسلک تحریر ملاحظہ فرمائیں۔ سوال نمبر ٨ : امیر یزید سیدنا حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے چچا زاد بھائی حضرت عبد اللہ بن جعفر طیار کے داماد ہیں۔ کیونکہ سیّدہ اُم محمد بنت عبد اللہ بن جعفر اُن کے نکاح میں تھیں، اس رشتے سے آپ سیدنا حسین کے بھیتج داماد ہوتے ہیں۔ (جمہرة الانساب لابن حزم) سوال نمبر ٩ : سیّدنا حضرت عُمر فاروق رضی اللہ عنہ کی پوتی سیّدہ اُم مسکین بنت عاصم بھی امیر موصوف کے حبا لۂ عقد میں تھیں، اس رشتہ سے آپ خلیفۂ دوم رضی اللہ عنہ کے پوت داماد ہوتے ہیں۔ (الانساب و الاشراف، کتاب المعارف) سوال نمبر ١٠ : واقعہ کربلا کے بعد علوی سادات کی رشتہ داریاں اُموی سادات میں ہوتی رہیں اور اِن کی اُن میں، جس کے ثبوت سے کتب تواریخ انساب پُر ہیں۔ سوال نمبر ١١ : سیّدنا علی بن حسین رضی اللہ عنہ المعروف بہ زین العابدین کربلا کے واقعہ میں موجود تھے۔ وہاں سے دمشق گئے اور امیر یزید کے ہاتھ پر بیعت کی اور زندگی بھر اس پر قائم رہے بلکہ واقعہ کربلا سے تین برس بعد واقعہ حرہ کے موقعہ پر امیر یزید کا حسن سلوک دیکھ کر اُن کے حق میں اِن الفاظ سے دُعائے خیر فرمائی۔ (وَصَلَّی اللّٰہُ اَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ یعنی اللہ امیر المومنین یزید کو اپنی رحمت سے ڈھانکے) (بلاذری۔ طبقات ابن سعد) جواب : جس کا سب کچھ لٹ گیا ہو وہ دُعائیں ہی دیا کرتا ہے۔ سوال نمبر ١٢ : (الف) سیدنا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد کوفہ کے اُن شریر النفس لوگوں نے سیدنا حسین کو امیر یزید کے خلاف خروج پر آمادہ کیا جن کے نا مبارک عزائم و مقاصد کبھی سیّدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ اور سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت