ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2006 |
اكستان |
زُہاد صحابہ کے بعد اور تابعین سے پہلے، اس زمرہ میں بیان فرمایا ہے جن کے وعظ و فرمان سے ہدایت حاصل کی جاتی ہے اور امیر یزید کے خطبہ سے چند جملے بھی نقل کئے ہیں اور ساتھ ہی لوگوں کو شرم دلائی ہے جو آپ پر شراب نوشی وغیرہ فجور کا اتہام لگاتے ہیں۔ وَھٰذَا یَدُلُّ عَلٰی عَظِیْمِ مَنْزِلَتِہ عِنْدَہ حَتّٰی یُدْخِلَہُ فِیْ جُمْلَةِ الزُّھَّادِ مِنَ الصَّحَابَةِ وَالتَّابِعِیْنَ یُقْتَدٰی بِقَوْلِھِمْ وَیُرْعَوٰی مِنْ وَّعْظِھِمْ، وَنَعَمْ، وَمَا اَدْخَلَہ اِلَّا فِیْ جُمْلَةِ الصَّحَابَةِ قَبْلَ اَنْ یَّخْرُجَ اِلٰی ذِکْرِ التَّابِعِیْنَ، فَاَیْنَ ھٰذَا مِنْ ذِکْرِ الْمُؤَرِّخِیْنَ لَہ فِی الْخَمْرِ وَاَنْوَاعِ الْفُجُوْرِ، الَاَ یَسْتَحْیُوْنَ۔ (العواصم من القواصم ص ٢٣٣) جواب : امام احمد بن حنبل کی'' کتاب الزہد ''طبع ہوگئی ہے۔ اس میں یہ موجود نہیں ہے اس لیے یہ لوگ ابن عربی کے حوالہ سے امام ا حمد کا نام لیتے ہیں۔ امام احمد کی رائے میرے منسلک مضمون میں دیکھئے۔ ممکن ہے ابن عربی کو مغالطہ ہوا ہو کیونکہ یزید بن معاویہ کئی گزرے ہیں۔ ایک یزید بن معاویہ تابعی تھے جو بڑے عابد اور زاہد تھے۔ (تہذیب التہذیب ص ٣٦٠ ج١١) سوال نمبر ٧ : حجة الاسلام امام غزالی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ امیر یزید نے نہ تو سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے قتل کا حکم دیا اور نہ ہی وہ اِس پر رضامند تھے۔ جو شخص اُن پر یہ الزام لگائے وہ حد درجہ ابلہ اور احمق ہے۔ نیز فرماتے ہیں کہ امیر یزید پر ''رحمة اللہ علیہ'' کہنا نہ صرف جائز بلکہ مستحب ہے اور چونکہ وہ مومن تھے اس لیے ہر نماز میں مومنین کی مغفرت والی دُعا میں شامل ہیں۔ وَاَمَّا التَّرَحُّمُ عَلَیْہِ فَجَائِز بَلْ ھُوَ مُسْتَحَبّ بَلْ ھُوَ دَاخِل فِیْ قَوْلِنَا فِیْ کُلِّ صَلَاةٍ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِلْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ فَاِنَّہ کَانَ مُؤْمِنًا۔ وَاللّٰہُ اَعْلَمُ ۔ کَتَبَہُ الْغَزَالِیُّ ۔ (تاریخ ابن خلکان ص ٤٦٥ ج١) جواب : (١) امام غزالی کا مسلک یہ تھا کہ کفار میں سے بھی کسی کا نام لے کر اُس پر لعنت جائز نہیں، چاہے وہ زندہ ہو یا مرچکا ہو ۔سوائے اُن لوگوں کے جن کے کفر کا ہمیں نصوص حدیث سے علم ہوگیا ہو جیسے کہ