ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2006 |
اكستان |
|
کرنا وغیرہ اِلزامات کی پُر زور تردید فرمائی کہ میںخود امیر یزید کے پاس رہا ہوں لیکن میں نے ہمیشہ انہیں پابند نماز اور سنت ِ رسول ۖ پر مضبوطی سے کاربند اور مسائلِ خیر و فقہ کا جویاں پایا۔ (الف) وَقَدْحَضَرْتُہ وَاَقَمْتُ عِنْدَہ فَرَأَیْتُہ مُوَاظِبًا عَلَی الصَّلٰوةِ مُتَحَرِّیًا لِّلْخَیْرِ یَسْأَلُ عَنِ الْفِقْہِ مُلَازِمًا للِّسُّنَّةِ ۔(تاریخ البدایہ والنہایہ لابن کثیر ص٢٣٣ ج٨ ، المنتقٰی ص٢٨١) جواب : یہ پہلے کی بات ہے، اپنی جگہ درست ہے۔ (ب) بلکہ آپ نے الزام لگانے والوں سے بحث و مناظرہ کیا۔ قَدْ سُئِلَ مُحَمَّدُ بْنُ الْحَنَفِیَّةِ فِیْ ذٰلِکَ فَامْتَنَعَ مِنْ ذٰلِکَ اَشَدَّ الْاِمْتِنَاعِ وَنَاظَرَھُمْ فِیْ یَزِیْدَ وَرَدَّ عَلَیْھِمْ مَااتَّھَمُوْہُ مِنْ شُرْبِ الْخَمْرِ وَتَرْکِہ بَعْضَ الصَّلٰوةِ ۔ (البدایہ والنہایہ ص٢١٨ ج٨) جواب : الزام لگانے والے اِن لوگوں کا سفر کرنا بعد کی بات ہے، یہ اپنی جگہ درست ہے اور شُربِ خمر کے بارے میں الگ بھی مضمون لکھ کر بھیج رہا ہوں اُس کا مطالعہ فرمالیں، عنوان ہے ''یزید اور شراب''۔ سوال نمبر ٥ : سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو جب سیدنا امیر معاویہ کے انتقال کی خبر ملی تو اول اُن کے لیے دُعا کی اور پھر امیر یزید کو اپنے خاندان کا نیک فرد قراردیا اور اِس کے ساتھ ہی امیر یزید کی بیعت و اطاعت کا حکم فرمایا اور خود بھی بیعت میں داخل ہوگئے وَاِنَّ ابْنَہ یَزِیْدَ لَمِنْ صَالِحِیْ اَھْلِہ فَالْزَمُوْا مَجَالِسَکُمْ وَاَعْطُوْا اَطَاعَتَکُمْ وَبَیْعَتَکُمْ فَمَضٰی فَبَایَعَ ۔ (بلاذری ص٤ ج١۔ الامامة والسیاسیة ص ٢٠٢ ج١) جواب : بلکہ وہ مکہ مکرمہ چلے گئے تھے، اِن کی بیعت اور یہ گفتگو مشکوک ہے اور اہل مدینہ کی یزید کے ہاتھ پر بیعت اِن کی خوشی سے نہیں تھی۔ مکہ مکرمہ،مدینہ منورہ اور کوفہ نے یزید کو کبھی دل سے قبول ہی نہیں کیا۔ سوال نمبر ٦ : امام غزالی رحمة اللہ علیہ کے شاگرد قاضی ابوبکر بن عربی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ امام احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ نے ''کتاب الزھد'' میں امیر یزید مرحوم و مغفور کا ذکر