ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2006 |
اكستان |
|
ہاں لیکن کوئی کنجی ایسی نہیں جس کے دندانے نہ ہوں۔ اگر ایسی کنجی لائوگے جس کے دندانے ہوں تو تو تمہارے لیے کھولا جائے گا ورنہ نہیں کھولاجائے گا۔'' جناب رسول اللہ ۖ نے اپنے خاص خاص صحابہ کرام کے بارے میں بھی یہ فرمایا ہے کہ خدا سے اُن کے بارے میں بہتری کی اُمید رکھی جائے۔ یقینی طور پر کسی کے تزکیہ اور نجات پاجانے کا دعوی نہ کرو۔ حضرت عثمان بن مظعون جو تیرھویں مسلمان تھے۔ حبشہ اور ہجرت مدینہ کی ،اہل بدر میں تھے جن کے بارے میں اللہ نے فرمایا ہے اِعْمَلُوْا مَاشِئْتُمْ فَقَدْ غَفَرْتُ لَکُمْ جو چاہو کرو میں نے تمہیں بخش دیا ہے (بخاری شریف ص٦٧ ج٢) اور وہ جناب رسول اللہ ۖ کے رضاعی بھائی بھی تھے وفات کے بعد آپ نے اِن کو چوما ان کے بارے میں آپ نے اُم العلاء انصاریہ رضی اللہ عنہا سے ارشاد فرمایا : وَاللّٰہِ اِنِّیْ لَاَرْجُوْالَہُ الْخَیْرَ وَوَاللّٰہِ مَا اَدْرِیْ وَاَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ مَاذَا یُفْعَلُ بِیْ۔ (بخاری ص ١٠٣٧ و ص ١٠٣٩ ج٢) ''خدا کی قسم میں اِن کے لیے بہتری کی اُمید رکھتا ہوں اور خدا کی قسم میں نہیں جانتا حالانکہ میں خدا کا رسول ہوں کہ میرے ساتھ کیا کیا جائے گا۔'' غرض یہ ہے کہ ڈرتے رہنا ہی بتلایا گیا ہے تو یزید کی اِن کے مقابلہ میں کیا حیثیت ہے کہ اُسے قطعی جنتی کہا جائے جبکہ اُس کی موت مدینہ منورہ کے واقعہ حرہ کے بعد حرم مکہ مکرمہ پر چڑھائی کے دوران ہوئی ہے اور اِس معصیت سے توبہ کا ثبوت نہیں ہے۔ سوال نمبر ٣ : سیدنا حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ہم نے امیر یزید کے ہاتھ پر اللہ اور اُس کے رسول ۖ کی بیعت کی ہے اِنَّا قَدْ بَایَعْنَا ھٰذَا الرَّجُلَ عَلٰی بَیْعِ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہ ۔ ( بخاری شریف ج٢ ص ١٠٥٣ ) جواب : وہ حضرت معاویہ کے زمانہ میں ہی سیاسیات سے کنارہ کش ہوگئے تھے۔ دیکھیں میرا منسلک مضمون(جو'' یزید اور شراب ''کے عنوان سے آگے آرہا ہے)۔ سوال نمبر ٤ : حضرت محمد بن علی رضی اللہ عنہ المعروف بابن الحنفیہ نے نہ صرف امیر موصوف کی بیعت کی بلکہ اُن پر عائد کردہ الزامات شراب پینا، نماز ترک کرنا، حدودِ قرآن سے تجاوز