ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2006 |
اكستان |
|
بڑھا کہ وہ کانپ رہا تھا اور جاکر حضور ۖ کے سامنے بیٹھ گیا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میں اس کا مالک اور اسے مارنے والا ہوں، یہ آپ کو گالیاں دیتی تھی اور گستاخیاں کرتی تھی، میں اِسے روکتا تھا وہ رُکتی نہ تھی اور اِس سے میرے دو بچے ہیں جو موتیوں کی طرح خوبصورت ہیں اور وہ مجھ پربہت مہربان بھی تھی لیکن آج رات جب اُس نے آپ ۖ کو گالیاں دینا اور بُرا بھلا کہنا شروع کیا تو میں نے خنجر لیا اُس کے پیٹ پر رکھا اور زور لگاکر اُسے مارڈالا۔ نبی پاک ۖ نے فرمایا لوگو گواہ رہو اِس کا خون ھَدَرْ یعنی بے سزا ہے۔'' (رواہ ابوداو'د ج٢/٢٥١، ناشر مکتبہ حقانیہ) ''حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک یہودیہ نبی کریم ۖ کو گالیاں دیتی اور برا بھلا کہتی تھی۔ تو ایک آدمی نے اُس کا گلا گھونٹ دیا یہاں تک کہ وہ مرگئی۔ رسول اللہ ۖ نے اُس کے خون کو ناقابل ِسزا قرار دے دیا''۔ (ابوداو'د ج٢ /٢٥٢) ''ابن ِخَطَل کی گانے والی دونوں باندیوں کو بھی رسول اللہ ۖ نے فتح مکہ کے موقع پر قتل کرنے کا حکم دیا تھا، اِن دونوں کے قتل کرنے کا حکم بھی اِسی لیے دیا گیا کہ یہ دونوں حضور ۖ کی شان میں بدگوئی کے اشعار گایا کرتی تھیں۔ اِن میں سے ایک قتل کی گئی اور دوسری بھاگ گئی جو بعد میں آکر مسلمان ہوگئی۔'' (رواہ فی ھامش ابوداو'د ج٢/٩، کذا فی ھامش البخاری ج٢/٦١٤) ''اِسی طرح رسول اللہ ۖ نے فتح مکہ کے موقع پر حویرث ابن نقید کو قتل کرنے کا حکم اِرشاد فرمایا ۔یہ بھی اُن لوگوں میں شامل تھا جو رسول اللہ ۖ کو ایذاء پہنچایاکرتے تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اُس کو قتل کیا''۔ (کذا فی ھامش البخاری ج٢/٦١٤) اِن واقعات سے معلوم ہوا کہ حضور ۖ کو گالیاں دینے والا'' مُبَاحُ الدَّمْ '' ہوجاتا ہے۔ یعنی اس کا خون بہانا جائز ہوجاتا ہے اور حق کا علمبردار سزائوں کا مستحق نہیں ہوتا بلکہ ثواب کا حق دار ہوجاتا ہے۔ لہٰذا اگر کوئی شخص حضور ۖ کی شان میں صراحةً یا اشارةً، قولاً یا فعلاً بدگوئی اور گستاخی کرے تو شرعاً گستاخی کرنے والا شخص قتل کا مستحق ہے اور قتل کرنے کی ذمہ داری حکومت پر ہے کہ وہ ہر طریقے سے ایسے مجرم کو پکڑ