ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2006 |
اكستان |
|
تا بمقدور خوب سعی کرے اللہ تعالیٰ پناہ دے گا'' ہمت ِمردان مددِ خدا ''مثل مشہور ہے ۔خوب سمجھ لو غرض اس سوانح عمری لکھنے سے یہی ہے کہ لوگ نصیحت حاصل کریں ۔اور اشارةً اِس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ تمام عورتوں سے حضرت فاطمہ افضل ہیں اِس لیے کہ اعلیٰ درجہ کی غیرت اعلیٰ درجہ کے ایمان کا ثمرہ ہے۔ پس آپ کا ایمان اعلیٰ ہوا جس کی وجہ سے یہ خصوصیت میسر ہوئی اور اِس فضیلت کو فضیلت ِجزئی کہہ کر بغیر کسی قرینہ کے تاویل کرنا غیر مناسب ہے۔ (١٠) عَنْ سَعْدِ بْنِ اَبِیْ وَقَّاصٍ قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ ھٰذِہِ الْاٰیَةُ نَدْعُ اَبْنَائَ نَا وَاَبْنَآئَکُمْ دَعَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ عَلِیًّا وَفَاطِمَةَ وَحَسَنًا وَ حُسَیْنًا فَقَالَ اَللّٰھُمَّ ھٰؤُلآئِ اَھْلُ بَیْتِیْ۔ (رواہ مسلم) '' حضرت سعد بن ابی وقاص سے روایت ہے کہ جب آیت نَدْعُ اَبْنَائَ نَا وَاَبْنَآئَکُم نازل ہوئی۔ جناب رسول اللہ ۖ نے حضرت علی اور حضرت فاطمہ اور حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو بُلایا پھر فرمایا کہ اے اللہ! یہ لوگ میرے گھر والے ہیں۔''(اس کو امام مسلم نے روایت کیا ہے) پورا قصہ یوں ہے کہ عرب میں قاعدہ تھا کہ جب کوئی قوم اپنے درمیان اختلاف کرتی کسی بات میں اور ایک دوسرے کو جھٹلاتے اور ظلم کرتے تو باہر شہر کے آتے تھے اور ایک دوسرے پر لعنت کرتے تھے اور کہتے تھے کہ جھوٹے پر اور ظالم پر خدا کی لعنت (لعنت کے معنی خدا کی رحمت سے دُور ہونا)۔ پس عرب میں عیسائیوں کا بھی ایک قبیلہ تھا بنی نجران اور اُن کو حضور سرور عالم ۖنے نامہ لکھا تھا اور مسلمان ہونے کا حکم فرمایا تھا اُنہوں نے چودہ آدمی اپنی قوم میں سے چھانٹ کر آپ کی خدمت میں بھیجے ۔پہلے دن ریشمین کپڑے اور انگوٹھیاں سونے کی پہن کر جناب رسول مقبول ۖ کی خدمت میں حاضر ہوئے آپ نے اُن کے سلام اور کلام کا کچھ جواب نہ دیا۔ وہ حیران ہوئے دوسرے دن وہ لوگ بمشورۂ عثمان اور حضرت عبد الرحمن بن عوف (اِن دنوں حضرات سے اور اُن لوگوں سے پہلے سے جان پہچان تھی) اور موافق رائے حضرت علی کے کہ اُس وقت اُن دونوں حضرات کے پاس تشریف فرماتھے وہ لباس اور انگوٹھی اُتارکر سادے لباس سے خدمت نبوی میں حاضر ہوئے۔ آپ نے اُن کے سلام کا جواب دیا اور اُن سے گفتگو فرمائی اور مسلمان ہونے کو فرمایا اُنہوں نے قبول نہ کیا اور بہت بیجا مباحثہ کیا اور حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰة والسلام کا حال پوچھا،آپ نے فرمایا کہ ٹھیرو اِس شہر میں تمہیں جواب ملے گا۔