ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2006 |
اكستان |
|
ہوں جو امامت کرسکیں۔ پس اگر صرف عورتیں یا نابالغ لڑکے ہوں تو نماز نہ ہوگی۔ اگر سجدہ کرنے سے پہلے لوگ چلے جائیں اور تین آدمیوں سے کم باقی رہ جائیں یا کوئی بھی نہ رہے تو نماز فاسد ہوجائے گی۔ ہاں اگر سجدہ کرنے کے بعد چلے جائیں تو پھر کچھ حرج نہیں۔ امام اور باقی نمازیوں کی نماز درست رہے گی۔ (٥) عام اجازت کے ساتھ اور اذان و اشتہار کے ساتھ نماز جمعہ کا پڑھنا۔ پس کسی خاص مقام پر چھپ کر نماز جمعہ پڑھنا درست نہیں۔ مسئلہ : فوج کی یونٹیں جب مشق کے لیے جنگلوں اور ویران علاقوں میں نکل جائیں اور وہاں خیمے لگاکے رہیں تو یہ لوگ جمعہ کی بجائے ظہر کی نماز پڑھیں کیونکہ جمعہ کے لیے شہر یا قصبہ ہونا ضروری ہے۔ مسئلہ : جس شہر میں جمعہ متعدد جگہوں پر ہوتا ہو وہاں کی جیل میں جمعہ پڑھنا جائز ہے جبکہ جیل میں باہر سے کسی غیر متعلقہ آدمی کو آنے کی اجازت نہ ہو۔ اسی طرح شہر یا فناء شہر میں واقع چھائونی یا قلعہ میں نماز جمعہ ادا کرنا درست ہے اگرچہ اُن میں دوسرے لوگ نہ آسکتے ہیں کیونکہ مقصود نماز سے روکنا نہیں ہے بلکہ انتظام مقصود ہے۔ یہی حکم شہر یا فناء شہر میں واقع سٹیشن کے پلیٹ فارم کا ہے۔ مسئلہ : فناء شہر وہ جگہ ہوتی ہے جو شہر کی ضرورتوں اور مصلحتوں کیلیے متعین ہو مثلاً قبرستان، کوڑا ڈالنے یا گھوڑا دوڑ یا جنگی مشق اور چاند ماری، فوجی اجتماع وغیرہ کے لیے میدان، ہوائی اڈہ اور ریلوے اسٹیشن وغیرہ۔ فناء شہر کا شہر سے اتصال ضروری نہیں اور بیچ میں کھیتوں کے ہونے سے فرق نہیں پڑتا۔ فناء شہر کے لیے حدود مقرر نہیں ہیں بلکہ یہ ہر شہر کی ضرورتوں کے مطابق ہوتی ہیں۔ مسئلہ : جو شخص شہر سے قریب کسی گائوں میں رہتا ہو اور بیچ میں کھیت یا چراگاہ پڑتی ہو لیکن وہ گائوں مستقل آبادی شمار ہوتی ہو، شہر یا فناء شہر میں اُس کا شمار نہیں ہوتا تو اگرچہ درمیان کا فاصلہ تھوڑا ہواور شہر سے اذان کی آواز گائوں میں پہنچتی ہو، گائوں والوں پر جمعہ فرض نہیں۔ مسئلہ : جمعہ کے لیے مسجد کا ہونا ضروری نہیں ہے، لیکن محض لاپرواہی سے یا آسانی کی خاطر اس کو معمول بنالینا مکروہ تحریمی ہے۔ (جاری ہے)