ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2006 |
اكستان |
|
ساتھ رہنا تو نابینا کے لیے ہے۔ اور دوسرا تو دیکھے گا بھی۔ لیکن دیکھنا نزدیک سے بھی ہوسکتا ہے اور دُور سے بھی جیسے حجة الوداع کے موقع پر ایسے بہت سے حضرات ہوں گے جنہوں نے آپ کو دُور سے ہی دیکھا ہوگا۔ وہ بھی مشرف بزیارت و صحبت شمار ہوں گے، انہیں صحابی ہی کہا جائے گا۔ بخاری شریف کے موجودہ مروجہ نسخوں کا حاشیہ بھی اِس کی وضاحت کے لیے مفید ہے۔ (حاشیہ ٤ ص ٥١٥ دیکھ لیجیے) حضرات حَسَنَیْن رضی اللہ عنہما اس معنی میں بلاشک صحابی ہیں۔ (ب) حضرات حسنین رضی اللہ عنہما ایسے صحابی ہیں کہ اُنہوں نے جناب رسول اللہ ۖ سے سنی ہوئی روایات بھی یاد رکھی ہیں۔ امام بخاری نے یہ بحث بھی فرمائی ہے کہ چھوٹی عمر کے بچہ کا جناب رسول اللہ ۖ سے سننا کب درست قرار دیا جائے گا اور کب نہیں؟ اِس مسئلہ کو بیان کرنے کے لیے اُنہوں نے کتاب العلم میں یہ باب ترتیب دیا ہے'' بَابُ مَتٰی یَصِحُّ سِمَاعُ الصَّغِیْرِ'' اس باب میں اُنہوں نے ایک چھوٹی عمر کے صحابی حضرت محمود بن الربیع رضی اللہ عنہما کی روایت پیش فرمائی ہے۔ ''عَقَلْتُ مِنَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَجَّةً مَجَّھَا فِیْ وَجْھِیْ وَاَنَا ابْنُ خَمْسَ سِنِیْنَ مِنْ دَلْوٍ۔ (بخاری شریف ص١٧) ''کہ مجھے یہ یاد ہے کہ جناب رسول اللہ ۖ نے ڈول میں سے اپنے دہن مبارک میں پانی لے کر میرے چہرہ پر ڈالا اور میں پانچ سال کا تھا''۔ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی عمر مبارک آنحضرت ۖ کی وفات کے وقت ساڑھے چھ سال سے زیادہ تھی اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی عمر سوا سات سال تھی۔ ابن تیمیہ لکھتے ہیں : وُلِدَ الْحَسَنُ سَنَةَ ثَلاثٍ مِّنَ الْھِجْرَةِ فِی النِّصْفِ مِنْ شَھْرِ رَمَضَانَ ھٰذَا اَصَحُّ مَا قِیْلَ فِیْہِ۔ وَوُلِدَ الْحُسَیْنُ لِخَمْسٍ خَلَوْنَ مِنْ شَعْبَانَ سَنَةَ اَرْبَعٍ مِّنَ الْھِجْرَةِ۔ (منھاج النسة ج٢ ص ٢٥٠۔٢٥١) a