ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2006 |
اكستان |
|
والقرآن یہ دو طرح کے علوم جانتے ہیں۔ انہوں نے انجیل بھی پڑھی ہے، انہوں نے قرآن پاک بھی پڑھا ہے۔ سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو بڑی عمر کے تھے اور وہ پڑھتے رہے ہیں، دین کی طلب پہلے سے ذہن میں سمائی ہوئی تھی، اُس طلب میں نکلتے رہے، سفر کرتے رہے حتّٰی کہ ایک جگہ کچھ عربوں نے اغوا کرلیا جیسے یہ علاقے ہیں آزاد علاقے اِن میں کسی آدمی کو پکڑلیا جائے اور بیچ دیا جائے تو یہ تو مسلمان تھے۔ وہ کفر کا زمانہ تھا، جس کا جہاں بس چلتا تھا بیچ دیتا تھا۔ بہت زیادہ کرتے تھے وہ یہ حرکت، تو اِدھر پکڑا، پکڑکر بیچ دیا، غلام بنالیا، پھر دس سے زیادہ مالکوں کے ہاتھوں بکتے بکتے یہ مدینہ منورہ پہنچے۔ یہ وہ دَور تھا جب جناب رسول اللہ ۖ ہجرت کرکے تشریف لائے تھے۔ پھر آپ نے اُن کو آزاد کرایا۔ تو جناب رسول اللہ ۖ اِن کو وقعت دیتے تھے، وزن دیتے تھے، ان سے رائے لیتے تھے۔ غزوۂ خندق جو ہوا ہے، خندق جو کھودی گئی ہے اور اِس طرز پر جو لڑائی لڑی گئی ہے ،یہ نیا طرز تھا عرب میں ،اِس کا رواج نہیں تھا۔ یہ اُنہوں نے اپنے یہاں کے دور کی بات بتائی، عمر بھی کافی تھی، جب مسلمان ہوئے ہیں تو کم از کم ڈھائی سو سال عمر تھی، اللہ تعالیٰ نے انہیں عمر بھی دی تھی، وہ بھی کوفہ ہی میں رہتے تھے۔ تو یہ (حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ) کہتے ہیں کہ کوفہ میں ایسے بڑے بڑے لوگ موجود ہیں تو تم کو طلب علم کے لیے اِدھر آنے کی ضرورت نہیں تھی، وہاں خود بہت بڑے بڑے لوگ موجود ہیں۔ آقائے نامدار ۖ نے جو حدیث میں نے شروع کی تھی اِس میں فرمایا ہے کہ اِھْتَدَ وْا بِھَدْیِ عَمَّارٍ عمار بن یاسر کی جو سیرت ہے پاک باطنی ہے اُس کی تم پیروری کرووَتَمَسَّکُوْا بِعَھْدِ اُمِّ عَبْدٍ اور جو ابن ِاُم عبد یعنی عبد اللہ ابن مسعود جو نصیحت کریں اُس نصیحت کو تم مضبوطی سے پکڑو، اُس پر قائم رہو۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو آخرت میں اُن کا ساتھ نصیب فرمائے۔ آمین ۔اختتامی دعا................