ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2005 |
اكستان |
|
ہم نے کہا تھاکہ وزیرستان میں کارروائی نہ کرتے تو امریکہ خود بم برسانے لگتا ۔ ہم اس ''عظیم حکمت عملی ''کے سبب امریکی بموں سے تومحفوظ رہے لیکن کراچی یونیورسٹی کے جیالوجسٹ کا کہنا ہے کہ ٨اکتوبر اوراس کے بعد کے جھٹکوں سے خارج ہونے والی توانائی ایک میگاٹن کے ٦٠ ہزار بموں کے برابر تھی ۔ ہم نے کہا تھا کہ اس سے کشمیر کاز کو بچا لیا گیا ہے اوراِس افتاد کی سب سے زیادہ تباہ کاری اِسی خطہ جنت نظیر میں ہوئی ۔ہم نے کہا تھاکہ اِس سے ہماری معیشت مضبوط ہو جائے گی ۔ اس ''کارخیر''کے کے معاوضے کے طورپر ہمیں پانچ سالوں پر محیط تین ارب ڈالر کی امداد کا وعدہ ملالیکن ورلڈبینک کے سابق نائب صدر اورمعروف ماہر اقتصادیات شاہد جاوید برکی کا بیان آیا ہے کہ پاکستانی معیشت کو دس سے بارہ اَرب ڈالر کا دھچکا لگا ہے ۔ انٹر نیشنل لیبر آرگنائزیشن کے اندازے کے مطابق ١١ لاکھ افراد بے روزگار اورکم ازکم ٤لاکھ گھر مکمل طورپر منہدم ہو گئے ہیں ۔ابھی تک ساری دُنیا سے آنے والی مدد ٧٠ کروڑ ڈالر ہے جو مطلوبہ فنڈز کا ٦فیصد بھی نہیں ۔ ہم نے کہا کہ امریکہ کا ساتھ دینے کے باعث اب ہمیں بیرونی قرضوں کی ضرورت نہیں رہی اورہم نے کشکول توڑ دیا ہے، اورآج ہم دنیا بھر کے چوراہوں میں جھولی پھیلائے صدا لگارہے ہیں۔ کیا سچ نہیں کہ وہ ساری تباہی وبربادی ہمارا مقدر بن گئی جس سے بچنے کے لیے ہم نے امریکہ کو اپنا کندھا پیش کیا تھا اوروہ سارے ثمرات غارت ہو گئے جن کے لالچ میں ہم نے ایک برادر اسلامی ملک کے خاک نشینوں کے سینے چھلنی کئے تھے۔ یہ سب کیا ہے؟ کیا یہ محض زمین کے نیچے رکھی پلیٹوں کا کیا دھرا ہے ؟ شاید نہیں ، یقینا نہیں۔ ایسا سوچنا خالق ِکائنات کے دست ہنر مند کی نفی کرنا ہے ،مجھے تو یہ چال بھی بے کل کیے ہوئے ہے کہ کیا ہمارے انکار کی صورت میں امریکہ ٢٨ ہزار مربع کلو میٹر علاقے پر ٦٠ ہزار بم برساتا اوراگر برساتا بھی تو کیا تباہی و بربادی کا حجم یہی ہوتا اوراگر ہوتا بھی تو کیا ہماری دولت ِ خودی اورمتاع ِ حمیت محفوظ نہ رہتی ؟ ہم نے کتنے خسارے کا سودا کیا''۔