ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2005 |
اكستان |
|
آبادیوں کے بیچ میں آچکے ہیں وہ محلے کے آوارہ گرد نوجوانوں کے لیے کھیل کے میدان بنتے جارہے ہیں اوراِن قبرستانوں میں جواریوں اورسٹہ بازوں کی کمین گاہیں بھی نظر آتی ہیں ،قبروں کے سامنے رہتے ہوئے اس طرح کی حرکتیں سخت آفت اور قساوت ِقلبی کی دلیل ہیں ۔ (٢) مُردوں کو نہلانا اورجنازوں میں شرکت کرنا : اسی طرح موت کو یاد کرنے کے لیے دواہم اورمؤثر اسباب بعض روایات میں بیان کیے گئے ہیں : (١) ایک یہ کہ مُردوں کے نہلانے میں شرکت کی جائے ۔ (٢) دُوسرے یہ کہ نماز ِجنازہ میں بکثرت شریک ہوا جائے ۔ حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : زُرِ الْقُبُوْرَ تَذْکُرُبِھَا الآخِرَةَ وَاغْسِلِ الْمَوْتٰی فَاِنَّ مُعَالَجَةَ جَسَدٍ خَاوٍ مَوْعِظَة بَلِیْغَة وَصَلِّ عَلَی الْجَنَآئِزِ لَعَلَّ ذٰلِکَ اَنْ یُّحْزِنَکَ فَاِنَّ الْحَزِیْنَ فِی ظِلِّ اللّٰہِ یَتَعَرَّضُ لِکُلِّ خَیْرٍ۔ (رواہ الحاکم ،شرح الصدور ص٥٠) قبروں کی زیارت کیا کرو ،اِن کے ذریعہ سے تم آخرت کو یاد رکھو گے۔ اورمُردوں کو نہلایا کرو اِس لیے کہ بے جان جسم میں غور وفکر بجائے خود ایک مؤثر نصیحت ہے۔ اورجنازوں پر نماز پڑھا کرو، ہو سکتا ہے اِس وجہ سے تمہارا دل غمگین ہو جائے کیونکہ غمگین آدمی اللہ کے سائے میں رہتا ہے اورہر خیر کا اُس سے سامنا ہوتا ہے ۔ اِس حدیث میں تین باتین ارشاد فرمائی گئی ہیں : اول قبرستان جانا جس کا ذکر اُوپر آچکا ہے ۔ دوسرے مردوں کو نہلایا ،یہ ایک اہم نصیحت ہے اور موجودہ معاشرہ کے لیے انتہائی قابل توجہ ہے ۔آج کل غیر مسلموں کے ریت رواج اور طورطریقوں سے متاثر ہو کر مسلم معاشرہ میں بھی میت کی نعش سے ایک طرح کی وحشت کا اظہار کیا جانے لگا ہے ، گھر والے بھی قریب جانا نہیں چاہتے ، جب غسل دینے کا موقع آتا ہے تو بھی دُوسروں پر چھوڑ دیتے ہیںحالانکہ یہ بُعد اوردُوری مرنے والے کے ساتھ ایک طرح کی زیادتی ہے ، میت کی لاش اسلام کی نظر میں نہایت قابل ِاحترام ہے، اس کے ساتھ اکرام کا معاملہ کرنا ضروری ہے۔ اس لیے بہتر یہ ہے کہ مسائل معلوم کرکے میت کے قریبی اعزہ ہی اُسے غسل دیں اوراگر پورا طریقہ معلوم نہ ہو تو کم ازکم غسل کرانے والے کے ساتھ پانی وغیر