ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2005 |
اكستان |
|
ستفتحون کا مصدر استفتاح ہے اس کا ایک معنی ہے مدد طلب کرنا۔ (١) علامہ شوکانی (تفسیر فتح القدیر صفحہ ٩٥جلد١ ) میں لکھتے ہیں ، والاستفتاح الاستنصار۔ (٢) علامہ آلوسی تفسیر رُوح المعانی صفحہ ٣٢٠ جلد ١ میں فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرت قتادہ اِس آیت کی یہ تفسیر کرتے ہیں کہ آنحضرت ۖ کی بعثت سے پہلے اہل ِ کتاب میں سے بنی قریظہ اور بنی نضیر اپنے فریق مقابل اَوس وخزرج پر فتح طلب کرنے میںآنحضرت ۖ کے وسیلہ سے اللہ تعالیٰ سے دعا کیا کرتے تھے اوریوں کہتے تھے اے اللہ !ہم تجھ سے سوال کرتے ہیں اس آخرالزمان نبی کے طفیل جس کی بعثت کاتو نے ہم سے وعدہ فرمایا ہے ،کہ ہمارے دُشمن پرآج ہمیں مدد فرما،وہ مددد ئیے جاتے ۔ (٣) علامہ جلال الدین سیوطی فرماتے ہیں کہ یہود مدینہ اور یہودخیبر کی جب عرب کے بت پرستوں سے لڑائی ہوتی تو یہ دعا مانگتے ۔اے اللہ! ہم تجھ سے احمد مصطفی نبی اُمی ۖ کے وسیلہ سے سوا ل کرتے ہیں جس کے ظاہر کرنے کا تو نے ہم سے وعدہ فرمایا ہے اوراس کتاب کے واسطہ وبرکت سے سوال کرتے ہیں جس کو تو سب سے آخر میں نازل کرے گا ، کہ ہم کو ہمارے دشمنوں پر فتح ونصرت عطا فرما ۔ (دُرِمنثور) (٤) شیخ الہند حضرت مولانا محمودحسن دیوبندی قدس سرہ اِس آیت کے فوائد میں تحریر فرماتے ہیں کہ قرآن اُترنے سے پہلے جب یہودی کافروں سے مغلوب ہوتے تو خدا سے دُعا مانگتے کہ ہم کو نبی آخرالزماں اورجو کتاب اُن پر نازل ہوگی اُن کے طفیل سے کافروں پر غلبہ عطا فرما ۔ تو ذرا سوچیے کہ جب نبی کریم ۖ اِس دنیا میں تشریف نہ لائے تھے اُس وقت بھی اہلِ کتاب آپ کے وسیلہ سے دعا کرکے فتح یاب ہوتے تھے ۔اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ کو بیان کرکے قرآن مجید میں اس قسم کے توسل کی کہیں تردید نہیں فرمائی پھر اِس کے جواز میں شبہہ کی کیا گنجائش ہو سکتی ہے؟ حدیث شریف سے تَوَسُّلْ کا ثبوت : سنن ابن ماجہ باب الصلٰوة میں عثمان بن حُنیف سے روایت ہے کہ ایک نابینا شخص آنحضرت ۖکی خدمت میں حاضر ہوا اورعرض کیا کہ دعا کیجیے کہ اللہ تعالیٰ مجھ کو عافیت دے۔ آپ ۖ نے فرمایا اگر توچاہے تو اس کو ملتوی رکھوں اور یہ زیادہ بہتر ہے، اوراگر تو چاہے تو دُعا کردوں۔ اس نے عرض کیا کہ دعا ہی کردیجیے ۔آپ ۖ نے اس کو حکم دیا کہ وضو کرے اوراچھی طرح وضو کرے اوردورکعت پڑھے اوریہ دعا کرے اے اللہ !میں